Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Punjab Mein Tehreek Insaf Ka Iqtidar

Punjab Mein Tehreek Insaf Ka Iqtidar

مجھے ایک خدشہ ہے، خدشے کی بنیاد میں ماضی بیٹھا ہے۔ جب ایک معصوم صورت اور سادہ مزاج کاروباری نوازشریف کو پہلے چیئر مین سپورٹس بورڈ پھر صوبائی وزیر خزانہ اور بعد میں وزیراعلیٰ اور وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نوازشریف نے کاروبار اور اقتدار کو ایک رکھا۔ عثمان بزدار بھی معصوم دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے تحصیل ناظم رہے، لمبی چھلانگ لگائی، وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ چند ماہ ہوئے کسی نے پوچھا!سئیں، پنجاب کا اصل حکمران گورنر چوہدری سرور ہیں، سپیکر چودھری پرویزالٰہی ہیں یا ہر ہفتے لاہور کا دورہ کر کے ہدایات جاری کرنے والے عمران خان؟ وزیر اعلیٰ بزدار نے ایک لحظے کے لیے سوال کرنے والے کو دیکھا اور کہا: فائلوں پر دستخط کس کے چلتے ہیں؟

ممکن ہے جنوبی پنجاب سردار عثمان بزدار کی کارکردگی سے مطمئن ہو، لاہور کو اطمینان نہیں۔ عثمان بزدار نیک نیت ہو سکتے ہیں لیکن وہ میٹرو پولیٹن شہر کے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے۔ بیوروکریسی حد درجہ محتاط ہے۔ اس لیے کوئی وزیر اعلیٰ کو مسائل کا حل بتانے کی کوشش نہیں کرتا۔ پھر پورے صوبے میں کوئی انتظامی افسر ٹک کر نہیں بیٹھ سکا۔ تین سال کے دوران ہزاروں تبادلے ہو چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کئی افراد اور گروہ ان تبادلوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ایسی شکایات کی وزیراعلیٰ نے اب تک تحقیقات نہیں کروائیں۔ گورننس کا ایک ہی ماڈل ہے کہ جہاں شکایت ہو وہاں افسر بدل دیئے جائیں۔ کبھی یہ نہیں سوچا گیا کہ یہ تبدیل ہونے والے جس نئی جگہ تعینات ہوں گے وہاں بھی ایسی ہی کارکردگی دکھائیں گے۔

لاہور آبادی کے لحاظ سے پورے پنجاب کا آٹھواں حصہ ہے لیکن بقول حضرت مجدد الف ثانیؒ لاہور قطب الارشاد ہے۔ جو بات لاہور میں رواج پائے گی وہ پورے برصغیر میں پذیرائی حاصل کرے گی۔ اس شہر کے افلاس زدہ طبقات نے آج تک تبدیلی کا چہرہ نہیں دیکھا۔ ہاں کسی وقت عمران خان پسماندہ بستیوں میں تنظیم سازی کے لیے جایا کرتے تھے، یا پھر چند مقامی رہنما جو اب جانے کہاں ہیں۔ اب مقامی تنظیم نہیں چند شخصیات ہیں جو تحریک انصاف کہلاتی ہیں۔ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں یہی شخصیات باہم مقابلے پر تھیں اس لیے تحریک انصاف ہار گئی۔ عثمان بزدار اگر شہر کی سیاست اور ماحول کو سمجھتے، لاہور کو اون کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔ وہ لاہور میں حکومت ضرور کر رہے ہیں لیکن لاہور کو اپنا نہیں سکے۔

لاہور کی بعض مصروف سڑکوں اور بازاروں کو رات کے پچھلے پہر پانی سے دھو دیا جاتا تھا۔ کئی بار برق رفتاری سے یہ کام ہوتے دیکھا۔ سڑکوں پر مشینی جھاڑو والی گاڑیاں تھیں۔ کوڑا اٹھانے والے ٹرک اچھی طرح بند ہوتے۔ ویسٹ کمپنی کا سپروائزر مقامی سیاسی نمائندوں کے ساتھ نگرانی کرتا کہ ویسٹ کمپنی کہیں کوڑا چھوڑ تو نہیں گئی۔ اب پرانے زمانے لوٹ آئے ہیں۔ صفائی کرنے والی مشینری ڈمپ ہے۔ جاروب کش ہاتھوں میں لمبا سا جھاڑو لیے سڑکوں کے کناروں پر دھول اڑاتے ہیں۔ پلاسٹک بیگ اور کچرا سڑک کنارے جمع کر دیتے ہیں یا پھر قریبی نالے میں پھینک دیتے ہیں۔ جہاں کی صفائی واسا کے ذمہ ہے۔ واسا والے سال میں ایک دوبار صفائی کرتے ہیں اس لیے کچرا وہیں پڑا رہتا ہے۔ یقینا لاہور میں کوڑا کرکٹ کراچی جیسا نہیں لیکن جتنا اب نظر آ رہا ہے اتنا کبھی نہیں دیکھا۔ کیا تحریک انصاف کے پاس کوئی ایک مقامی کارکن نہیں جسے شہر کی میئر شپ کے لیے تیار کرنا مقصود ہو۔

کمزوری دشمنوں کو حملے اور دوستوں کو مداخلت کا موقع دیتی ہے۔ تحریک انصاف نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ منظم سیاسی جماعت کے طور پر وہ فعال نہیں ہو سکی۔ معلوم نہیں برادرم سیف اللہ نیازی اس معاملے میں کس حد تک بااختیار ہیں کہ جماعت کے عہدیداروں کو تھنک ٹینک بنا سکیں۔ ایک سال باقی ہے۔ اس میں ووٹروں تک کتنی رسائی حاصل کرلیں گے؟

بچپن میں کوٹ لکھپت کا سارا علاقہ مزدور حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا مرکز دیکھا۔ ایک طرف پیکو فیکٹری تھی جہاں کم و بیش پندرہ ہزار لوگ کام کرتے، ریلوے لائن کے مشرقی طرف اتفاق فائونڈری تھی، چھ سات ہزار مزدور وہاں بھی ہوں گے۔ قینچی سٹاپ کے قریب پیکجز تھی جہاں تیس ہزار کارکن تھے۔ پھر چھوٹے کارخانوں میں ٹریڈ یونین تھی۔ یوم مئی کو میلہ لگ جاتا۔ کسی کارخانے میں یونین الیکشن ہوتے تو مزدور رات دن ایک کردیتے۔ جب یونین کے لوگ اپنے ہی کسی لیڈر کے بار بار صدر بننے پر اعتراض کرتے تو صدر صاحب اگلی بار کسی کمزور ساتھی کو صدارت کا امیدوار بنا دیتے۔ خیال رکھتے کہ یہ جیت نہ پائے۔ جب الیکشن میں شکست ہوتی تو تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے اسی ہوشیار رہنما سے گزارش کرتے کہ اگلی بار آپ ہی امیدوار ہوں۔ خدشہ یہی ہے، قطب الارشاد کے لوگ اختیار میں نظر انداز ہورہے ہیں۔

لاہور کے لوگوں کو کسی ادارے کے بورڈ، کسی انتظامی کمیٹی، کسی علمی و ادبی ادارے کی سر براہی، کسی منافع بخش سیاسی عہدے پر تعینات نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے کہ تحریک انصاف تو کہیں نہیں بس بیرون لاہور سے لوگ لا کر اس شہر کے معاملات کے نگران بنائے جا رہے ہیں۔ خدشات کی بنیاد یہی ہے کہ لاہور کو ناآسودہ رکھ کر کسی تجربہ کار کی جگہ محفوظ رکھی گئی ہے۔ باقی یہ امر حیران کن نہیں ہو گا کہ ہم جنہیں معصوم اور بھولے بھالے سمجھتے ہیں وہ کل کلاں ملک کے وزیراعظم بن کر فائلوں پر دستخط کر رہے ہوں۔ اقتدار اختیار کا نام ہے جس کے پاس اختیاراس کا اقتدار۔