سفر کے لئے ہمیشہ شوق سے آمادہ رہتا ہوں۔ اس بار ڈیرہ اسماعیل خان منزل تھی۔ نئے سفر معلومات اور تجربات دیتے ہیں اور زمینوں کے مزاج کا پتہ دیتے ہیں، موسم اور ذائقوں سے آشنا کرتے ہیں، نئے کردار اور انوکھی داستانوں سے ملاتے ہیں۔ برادرم ملک سلمان اور عقیل شریف ہمراہ تھے۔ لاہور سے براستہ میانوالی اورلاہور سے براستہ بھکر دو راستے ہیں جو آپ کو ڈیرہ اسماعیل خان لے جا سکتے ہیں۔ تیسرا راستہ اسلام آباد سے براستہ سی پیک موٹر وے ہے، جو اگلے ایک ڈیڑھ ماہ میں کھول دیا جائے گا۔ ممکن ہے اور رستے بھی ہوں کیونکہ راستے تو ہزار ہوتے ہیں۔ ہم لاہور سے ملتان جانے والی موٹر وے پر آئے اور رجانہ کے انٹر چینج سے ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچے۔ لاہور سے نکلتے شام کے سوا پانچ ہو چکے تھے۔ ٹوبہ تک آتے اندھیرا گہرا ہوگیا۔ ٹوبہ آ کر منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ضرور یاد آتا ہے۔ یہاں سے جھنگ کی طرف چل پڑے بھوک چمک اٹھی تھی۔ غالباً ہیڈ تریموں راستے میں پڑتا ہے۔ مچھلی کی بہت سی دکانیں روشنیوں سے بھری تھیں۔ ہم اگر رکتے تو آدھا گھنٹہ مچھلی تیار ہوتی اور پھر کھانے پر آدھا گھنٹہ لگ جاتا اس لئے سفر جاری رکھا اور ایک چھوٹے سے اڈے سے کچھ پھل ساتھ رکھ لئے۔
اٹھارہ ہزاری کے قریب ایک ٹرک ہوٹل سے دال ماش اور آلوگوبھی کے ساتھ کڑ کڑ کرتی تازہ تنوری روٹیوں نے بدن میں پھیلی بھوک کا ہر مسام لذت سے بھر دیا۔ مدینہ ہوٹل ہمیں تو بہت معقول لگا۔ کھانا کھا کر روانہ ہوئے تو سڑک جو پہلے ہی خاصی خستہ حال تھی۔ بہت زیادہ ابڑ کھبڑ ہو گئی۔ اٹھارہ ہزاری سے حیدر آباد تھل کے درمیان محو سفر تھے۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ اچانک ایک کھڈا سڑک کے بیچ آ گیا۔ گاڑی کے بائیں طرف کا اگلا اور پچھلا رم ٹیڑھا ہو گیا، دونوں پہیے پنکچر۔ اردگرد تھل کا ویرانہ۔ دو چار منٹ کے بعد کوئی ٹرک، کار یا موٹر سائیکل گزر رہا تھا۔ ایک ٹرک والا رکا۔ اس نے بتایا کہ ایک کلو میٹر آگے پنکچر والاہے۔ دونوں ٹائر کھولے گئے۔ ڈگی سے سٹپنی آگے لگائی گئی۔ ملک سلمان کا خیال تھا کہ ہم تینوں کو گاڑی لاک کر کے جانا چاہیے کیونکہ ویرانے اور اندھیرے میں کسی کا رکنا خطرے سے خالی نہیں، ٹرک ڈرائیور مقامی تھا۔ وہ یقین سے بولا کہ یہ محفوظ اور پرامن علاقہ ہے۔ آپ گاڑی کھلی چھوڑ جائیں پھر بھی محفوظ رہے گی۔ میں نے ان دونوں کو بھیج دیا۔ ان کے جانے کے بعد اردگرد دیکھا۔ جنڈ کے ٹیڑھے میڑھے درخت، تھل کی ریت گویا زمین سے ابل رہی تھی۔ سڑک پر ایک نہیں کئی بڑے بڑے کھڈے تھے۔ جب کوئی گاڑی آتی تو روشنی اور ہلکا سا شور سنائی دیتا۔ گاڑی گزر جاتی تو خاموشی اور اندھیرا اچانک سے بڑھ جاتے۔ پہلے دو تین کار والے بغور دیکھتے گزرے، ایک موٹر سائیکل والا آیا۔ میں محتاط ہو گیا۔ اس نے سلام کیا اور بتایا کہ وہ قریب ہی رہتا ہے، اگر رات رکنے یا گاڑی کا مسئلہ ہے تو وہ مدد کر سکتا ہے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ پھر ایک کاررکی۔ ایک شخص نے شیشہ نیچے کر کے صورت حال کا جائزہ لیا اور بولا کہ وہ تیس کلو میٹر آگے حیدر آباد تھل رہتے ہیں۔ ان کے پاس اضافی ٹائر موجود ہے۔ اگر میں چاہوں تو یہ ٹائر استعمال کر سکتا ہوں۔ مجھے لگا یہ بھلے لوگوں کی زمین ہے۔ نیک دل، خلوص سے بھرے اور ہمدرد۔ 20منٹ بعد پنکچر لگ کر ٹائر آ گیا۔ رم تھوڑا مرمت کر دیا گیا تھا۔ ٹائر نصب کر کے پنکچر کی دکان تک آئے اور دوسرا ٹائر بھی مرمت کرایا۔ روانہ ہوئے تو رفتار آہستہ رکھی۔ خدا خدا کر کے بھکر کی حدود شروع ہوئیں۔ اب سڑک نسبتاً ہموار ہو گئی لیکن سڑک کنارے چھوٹے قصبوں اور اڈوں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ کِرلے، جنگلی بلیاں اور جنگلی کتے اندھیرے سے نکلتے اور تیزی سے سڑک پار کر جاتے۔ آخر رات ساڑھے بارہ بجے بھکر سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے۔
ڈیرہ اسماعیل گرم علاقہ ہے، مٹی زیادہ تر چکنی ہے، یہ مٹی پانی زیادہ جذب نہیں کرتی۔ پہاڑی کیکر اور کھجور مقامی درختوں میں نمایاں ہیں۔ ہم جس حصے میں تھے وہاں زمینی پانی پینے کے قابل نہ تھا۔ اگلے دن شہر کے ساتھ بہتا دریائے سندھ دیکھا۔ چار پانچ میٹنگیں تھیں۔ قریب ہی کافرکوٹ کا تاریخی علاقہ ہے، ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک سڑک ٹانک اور وزیرستان تک جاتی ہے۔ وزیرستان میں آپریشن کے دوران کئی صاحب حیثیت افراد نے ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش گاہ بنا لی۔ لوگ زیادہ تر پنجابی کے سرائیکی لہجے میں بات کرتے ہیں۔ شہر کی ڈھکی نسل کی کھجور اور سوہن حلوہ مشہور ہیں۔ اس شہر کا ایک حوالہ مولانا فضل الرحمن اور علی امین گنڈا پور ہیں۔ شہر کی حالت بہت خراب ہے۔ جانے چوہتربرس تک یہاں سے منتخب ہونے والے کس طرح لوگوں کو اپنی کارکردگی سے مطمئن کرتے رہے ہیں۔ کینٹ کا علاقہ صاف ستھرا اور منظم نظر آیا۔ ایک قومی اخبار کے نمائندے فراز مغل نے بتایا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔
ساڑھے چار بجے سی پیک موٹر وے کے ذریعے اسلام آباد کے لئے نکلے۔ موٹر وے انٹر چینج چالیس کلو میٹر پر ہے۔ موٹر وے شاندار ہے۔ تھل کے درمیان سے گزرتی موٹر وے کے اردگرد کمال کا لینڈ سکیپ ہے، جو پہاڑی ہے نہ جنگلاتی۔ کم بلندی کے ٹیلے، کھجور اور کیکر کے ایک دوسرے سے دور دور کھڑے جھنڈ۔ اسلام آباد چار سو کلو میٹر ہے۔ رات ہوئی تو سفر خطرناک ہو گیا، موٹر وے پر کئی مقامات پر ملبہ اچانک سامنے آ جاتاہے، دو تین جگہ سے موٹروے چھوڑ کر ویرانے میں ہنگامی آمدورفت کے لئے تیار کچے راستوں پر جانا پڑا۔ رات سلیم ممتاز چودھری کی محبت میں بسر کی اور صبح لاہور روانہ ہو گئے۔ مجھ سے کسی نے اس سفر کے دوران پوچھا کہ آپ علاقوں سے واقفیت کیسے کرتے ہیں۔ میں نے بتایا:مقامی کھانے کھاتا ہوں، مقامی پھل چکھتا ہوں، مقامی فنکاروں، شاعروں اور اساتذہ سے ملتا ہوں۔ یوں سب جان لیتا ہوں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کو ابھی مکمل نہیں جان پایا اگلا چکر لگا تو اس شہر کی علمی، تاریخی اور ثقافتی خصوصیات پر زیادہ بات ہو سکے گی۔