جنرل پرویز مشرف کا دور ختم ہونے کے قریب تھا۔ جنرل تنویر نقوی کا ترتیب دیا گیا مقامی حکومتوں کا نظام فعال تھا۔ فوجی حکومت اس کا کریڈٹ لیتی تھی۔ انٹیلی جنس ادارے کے اعلیٰ ترین عہدیداروں میں سے ایک نے پوچھا کیا آپ مجھے نئے بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمائندگی کے سماجی پہلوئوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ میں انہیں وہ کچھ بتائوں جو دیگر ذرائع سے ان تک نہیں پہنچ رہا تھا۔ میں نے کچھ پوائنٹ تحریری شکل میں فراہم کر دئیے۔ میں نے بتایا کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا خیال بہت عمدہ اور پاکستان میں نچلی سطح تک جمہوری ڈھانچہ تشکیل دینے میں ستون کا کام کر سکتا ہے۔ لیڈی کونسلر گلی محلے میں خواتین کو سیاسی اختیار ملنے کی علامت ہیں۔ انہوں نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں نمائندگی پر سوال کیا تو میرے لئے جواب دینا مشکل ہو گیا تاہم میں نے بلدیاتی اداروں میں ٹائون ناظمین، ضلع ناظمین اور اسمبلی میں جانے والی خواتین کے لئے مشترکہ طور پر ایک نکتہ واضح کر دیا۔ بتایا کہ یوسی میں لیڈی کونسلر بننے والی اکثر خواتین محلے کی دایہ، رشتہ کرانے والی، پرائیویٹ سکول کی ٹیچر یا بیوٹی پارلر چلانے والی ہیں۔ یہی خواتین ہر جماعت کے پرائمری یونٹ کی سرگرم کارکن ہوتی ہیں۔ یہ امر بھی سامنے آیا کہ بہت سی ایسی خواتین بھی لیڈی کونسلر منتخب ہو گئیں جو باقاعدہ طور پر قحبہ خانے چلاتی تھیں۔ ان کے بے باک لہجے کو سیاسی دلیری قرار دے کر بہت سے سرپرست سامنے آئے۔ اس طرح کی سابق لیڈی کونسلر اب تک اپنے علاقے کے لوگوں کی گردن پہ سوار ہیں، وہ خود، ان کے بیٹے اور بعض اوقات شوہر غیر قانونی دھندوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
صوبائی اور قومی اسمبلی میں ایسی کئی خواتین پہنچیں جو نچلے اور درمیانے درجے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں کئی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں لیکن ان کے قدر دانوں نے ان کی سیاسی استعداد کی بجائے کچھ اور خوبیوں کو سامنے رکھ کر انہیں خصوصی نشست کی فہرستوں میں شامل کیا۔ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی دیگر خواتین وہ تھیں جن کے باپ یا خاوند الیکٹ ایلبز تھے لیکن بی اے کی شرط پر پورا نہ اترنے یا کسی اور عذر کی وجہ سے وہ خود انتخابات میں حصہ لینے کے قابل نہ رہے تو انہوں نے اپنے خاندان کا سیاسی وقار بحال رکھنے کے لئے اپنی خواتین کو منتخب کرایا۔ نچلی سطح پر غریب گھرانوں کی خواتین اور بالائی سطح پر دولت مند سیاسی گھرانوں کی خواتین کے سیاسی کردار سے جمہوریت کو اس لئے فائدہ نہ ہو سکا کہ بلدیاتی اداروں کا نظام معطل رہا یا پھر اس طرح تبدیل کر دیا گیا کہ یہ عوام کے لئے کارآمد نہ رہے۔ اپنے گھرانوں کی عبوری نمائندگی کرنے والی بہت سی خواتین واپس گھر داری میں مصروف ہوگئیں لیکن کچھ گھرانوں کو ایک راہ ملی اور انہوں نے اپنی پڑھی لکھی، باصلاحیت خواتین پر اعتماد کیا۔ رجب علی بلوچ فیصل آباد کے اہم سیاستدان تھے۔ عوام کی خدمت کے باعث وہ ہر دلعزیز تھے۔ انہوں نے تاندلیانوالہ اور سمندری کے علاقوں پر مشتمل حلقے سے 2002ء میں الیکشن لڑا اور قاف لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، بعدازاں مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات میں وہ ان علاقوں سے ایک بار پھر ایم این اے منتخب ہوئے۔ میاں رجب علی خان بلوچ 13مئی 2018ء کو کینسر سے لڑتے ہوئے راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کے بھائی علی گوہر خان بلوچ موجودہ قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور بیوہ عائشہ رجب مسلم لیگ ن کی جانب سے مخصوص نشستوں پر کامیاب قرار پائیں۔
مرکزی قائدین کی جانب سے اپنے قریبی افراد کی سرگرمیوں سے چشم پوشی بعض اوقات جماعت اور نظریات کو نقصان پہنچاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو پی ٹی وی میں ملازم ایک مشہور نوجوان خاتون کو ناہید خان نے ان سے متعارف کرایا۔ خاتون پرکشش اور ذہین تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اپنے اردگرد لائق خواتین کی ضرورت تھی۔ وہ خود کو محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔ چاہتی تھیں کہ ذاتی سٹاف زیادہ تر خوتین پر مشتمل ہو۔ خاتون کو ایک اہم ذمہ داری دی گئی۔ چند ماہ کے بعد معلوم ہوا کہ خاتون بااثر اجنبیوں اور بعض دیگر افراد سے ملتی ہیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات کی تفصیل وزیر اعظم کے ایک مرد معتمد نے انہیں کاغذ کی چٹ پر لکھ کر پیش کی۔ ناہید خان اور بے نظیر بھٹو اپنے مرد ساتھی پر خفا ہوئیں اور انہیں تنگ نظر قرار دے کر ناراضی کا اظہار کیا۔ دو چار ہفتے ہی گزرے تھے کہ خاتون ایک ہوٹل پر چھاپے میں پکڑی گئیں۔ معاملہ فوری طور پر وزیر اعظم کے نوٹس میں لایا گیا۔ نوجوان وزیر اعظم کو کئی طرح کے وسوسوں نے گھیر لیا تاہم انہوں نے تدبر سے کام لے کر خاتون کا تبادلہ کسی اور محکمے میں کر کے اس سے نجات حاصل کر لی۔ اس واقعہ کے بعد بے نظیر بھٹو انتہائی محتاط رہنے لگیں۔ اس واقعہ کے تین کردار ابھی حیات ہیں۔
لاہور میں ایک بار ایک خاتون سیاسی ورکر کو گرفتار کیا گیا۔ سمن آباد کے علاقے سے گرفتار خاتون پر الزام تھا کہ وہ قحبہ خانہ چلاتی ہے۔ خاتون کے بارے میں ساری دنیا جانتی تھی۔ گرفتاری کے وقت اس نے پولیس کو چیلنج کیا کہ وہ ایک دن حراست میں نہیں رہے گی۔ اگلے دن وہ آزاد تھی۔ خواتین ہی نہیں سیاسی جماعتوں میں کسی وجہ سے بعض مرد بھی قائدین کی کمزوری بن جاتے ہیں اور پھر وہ خواتین کارکنوں کا استحصال کرتے ہیں۔ عائشہ خان ایک لائق احترام اور طاقتور گھرانے کی تعلیم یافتہ خاتون ہیں جو ایسے بدطینت سیاستدان کو جواب دے سکتی تھیں لیکن کتنی خواتین ہیں جو مختلف جماعتوں کے اہم رہنمائوں کے ہاتھوں ظلم اور استحصال کا شکار ہیں۔ ان کو عشروں تک خواب دکھا کر لوٹا جاتا ہے، پارٹیاں اور پارٹیوں کے سربراہ ایسے واقعات پر مٹی ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں، کوئی خواتین کے لئے سیاست کو محفوظ بنانے پر توجہ نہیں دیتا۔