صوفی تبسم نے ایک نظم کہی تھی
پانچ چوہے/پانچ چوہے گھر سے نکلے/کرنے چلے شکار/ایک چوہا رہ گیا پیچھے/باقی رہ گئے چار/چار چوہے جوش میں آ کر/لگے بجانے بین/ایک چوہے کو آ گئی کھانسی/باقی رہ گئے تین/تین چوہے ڈر کر بولے/گھر کو بھاگ چلو/ایک چوہے نے بات نہ مانی/باقی رہ گئے دو/دو چوہے پھر مل کر بیٹھے/دونوں ہی تھے نیک/ایک چوہے کو کھا گئی بلی/باقی رہ گیا ایک/ایک چوہا جو رہ گیا باقی/کر لی اس نے شادی/بیوی اس کو ملی لڑاکی/یوں ہوئی بربادی۔
مولانا فضل الرحمن پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ بنے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی کے اعتبار سے مسلم لیگ نون اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تھی، اقتدار میں شراکت اور جمہوری سیاست کے حوالے سے پیپلز پارٹی مولانا سے کہیں بہتر تھی۔ مسلم لیگ نون اور مولانا پی ٹی آئی کے متعلق تعصب کی حد تک نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ یہ شدت پسندی دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی۔ یہ نہ سمجھئے گا کہ پی ڈی ایم اس ایک وجہ سے بنا۔ مولانا کئی ماہ تک لیگی قیادت کو باور کراتے رہے کہ اگر ان کا ساتھ دیا جائے تو وہ لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ مولانا کی تجویز پر مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف اور قائد میاں نواز شریف کے درمیان رائے کا اختلاف تھا۔ شہباز شریف مولانا پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے، نواز شریف بم کو لات مارنے کی عادت سے مجبور۔ دونوں بھائی ایک ہیں لیکن ان کی اولاد اب ایک دوسرے سے مختلف سوچنے لگی ہے۔ دونوں نے اپنی پارٹی میں الگ الگ دھڑے بنا لئے ہیں۔
مولانا کے بار بار کے اصرار پر نواز شریف کو ایک رستہ سجھائی دیا۔ ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ مریم کو لیڈر بنانے کی مہم شروع کی جائے۔ اس مہم کے دوران اگر قانونی رعائتیں حاصل کرنے یا ہیئت حاکمہ سے نئی ڈیل کا موقع مل گیا تو اسے اضافی فائدہ سمجھ لیا جائے گا۔ مریم کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کی تنقید سے بچانے کے لئے سٹریٹجک پلانر گروپ نے منصوبہ تیار کیا۔ مولانا سے کچھ وعدے کئے گئے، حافظ حسین احمد کے بقول اربوں روپے کے فنڈز فراہم ہوئے اور انہیں ایک عظیم سیاسی رہنما تسلیم کر لیا گیا۔ اس صورت حال سے ناخوش شہباز شریف نے اپنی درخواست ضمانت واپس لے لی اور یوں نیب کی حراست میں چلے گئے۔ مولانا اور آصف علی زرداری کے ذاتی تعلقات خوشگوار ہیں اس لئے ان سے درخواست کی گئی کہ پی پی کو بھی مجوزہ اتحاد کا حصہ بنایا جائے۔ پیپلز پارٹی کو بلاول کی لانچنگ کا مسئلہ تھا۔ وہ اس موقع کو بلاول کے سیاسی کیریئر اور جدوجہد کے حوالے سے کارآمد بنانا چاہتی تھی۔ یوں ایک اتحاد پی ڈی ایم کے نام سے بن گیا۔ کے پی کے کی بڑی جماعت اے این پی آصف زرداری کے رابطے پر اتحاد میں شامل ہو گئی۔ مولانا کی گوٹی سیٹ تھی۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے ان چھوٹی جماعتوں کو اتحاد میں شامل کیا جن میں سے کئی کے نام بھی معروف نہیں لیکن ان جماعتوں کے سربراہ نواز شریف یا آصف زرداری کے حلقہ اثر میں تھے۔ ساجد میر، انس نورانی اور کچھ دیگر جماعتیں محض برائے وزن اس اتحاد کا حصہ بنیں۔
پیپلز پارٹی فنانسر نہ ہونے کے باوجود پی ڈی ایم سے فائدہ اٹھانے میں سب سے زیادہ کامیابی رہی۔ مریم نواز کو بھٹو کے مزار پر لے گئی، پیپلز پارٹی کے حق میں نعرے لگوا لئے، گیلانی کو سینیٹر منتخب کروا لیا اور ہیئت حاکمہ(اسٹیبلشمنٹ) کے ساتھ اپنے بگڑے معاملات درست کر لئے۔ مریم کی سیاسی لانچنگ کا عمل بلا شبہ کامیاب رہا۔ وہ اپنے گرد کچھ لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب رہیں لیکن عوام سے براہ راست رابطہ مضبوط نہ بنا سکیں۔ ان کے بیانیے نے مسلم لیگ نون کی سیاسی طاقت کو نقصان پہنچایا۔ پہلے ان سابق فوجی افسران نے علیحدگی اختیار کی جو ریٹائرمنٹ کے بعد مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کر رہے تھے، یہ لوگ عشروں سے رابطوں کا ایک موثر پل بنے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو مریم کو احترام دیتے ہیں لیکن انہیں اپنی قائد ماننے کوتیار نہیں، وہ خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ لاہور کے کچھ اہم رہنما بھی چپ ہیں۔ اسی وجہ سے لاہور کا جلسہ ناکام ہوا۔
مریم مسلسل سیاسی غلطیاں کر ر ہی ہیں، وہ راستے کھولنے کی بجائے اپنے راستے مسدود کرنے کی حکمت عملی سے کام کرتی ہیں۔ وہ سمجھ نہ سکیں کہ پی ڈی ایم پر انہوں نے سب سے زیادہ اخراجات کئے لیکن وہ اکیلی کچھ نہیں کر سکیں گی۔ پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی کے ذریعے مریم نواز نے پہلے پیپلز پارٹی اور پھر اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری کرائے۔ اے این پی نے راستہ الگ کر لیا ہے۔ چند روز میں آفتاب شیر پائو بھی الگ ہونے والے ہیں۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی جدا ہو سکتی ہے۔ متبادل اپوزیشن اتحاد سمجھیں بن گیا۔ پی ڈی ایم سے جمہوری جدوجہد والے چہرے نکل گئے تو باقی کا ہونا نہ ہونا ایک برابر۔
شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے شوکاز نوٹس پی ڈی ایم کے آئین کے مطابق جاری کئے، پھر ان نوٹسز کو شوکاز کہنے کی بجائے وضاحت نامہ قرار دیدیا۔ سچ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا کوئی ایسا آئین اور ضابطہ تھا ہی نہیں اس لئے شاہد خاقان عباسی نے اپنی غلطی پر معاملات خراب ہوتے دیکھ کر نوٹسز کی حیثیت بدل دی۔ مریم نواز پی ڈی ایم کو مسلم لیگ ن سمجھ بیٹھی تھیں، ستمبر 2020 میں بننے والا اپوزیشن اتحاد ایک سال نہ چل سکا، سب پی ڈی ایم کو چھوڑ رہے ہیں، یوں ہوئی بربادی۔ جہانگیر ترین والی بربادی کا تذکرہ آئندہ۔