میٹھا انسانی حیات کا لازمی جزو ہے گویا میٹھے کے بغیر انسانی خوراک کا تصور ہی نامکمل ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ میٹھا مختلف اشکال میں ہوتا ہے۔ مثلاً ماضی قریب میں میٹھے کا حصول دیسی و روایتی طریقوں سے ہوتا تھا یعنی گڑ و لال شکر۔ پھر وقت نے کروٹ بدلی اور عصر حاضر میں تمام میٹھی اشیا و میٹھے کھانے فقط چینی ہی سے تیار ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم چینی کی تیاری و اس سے متعلقہ امور پر تفصیلی گفتگو کریں۔ چینی کی تیاری کا اہم ترین ذریعہ ہے گنا جس کی فصل ہمارے ملک میں وسیع پیمانے پر کاشت کی جاتی ہے یہ فصل نو ماہ میں تیار ہوتی ہے۔
آغاز میں گنے کی فصل کو ہر ایک ماہ بعد پانی کی ضرورت ہوتی ہے پھر کوئی تین سے چار ماہ بعد گنے کی فصل کو پانی دینے کی مدت دو ماہ ہوتی ہے۔ گویا فصل کے آغاز سے تیاری تک کوئی چھ بار گنے کی فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گنے کی فصل کا آغاز مارچ میں ہوتا ہے تاکہ اکتوبر و نومبر تک یہ فصل تیار ہو جائے کیونکہ اکتوبر و نومبر ہی شوگر ملز میں گنے کی کریشنگ کے سیزن کا آغاز ہوتا ہے، چنانچہ کسان کو اپنی گنے کی فصل شوگر ملز میں لانے سے قبل شوگر ملز انتظامیہ سے ایک پرچی حاصل کرنی ہوتی ہے یہ اجازت نامہ ہوتا ہے کہ کسان تیار گنا شوگر ملز میں لے آئے، بغیر پرچی کے گنا لانے والے سے گنا نہیں خریدا جاتا۔ اب کھیت سے گنا ٹرالی پر لوڈ کرکے شوگر ملز لایا جاتا ہے مگر یہ گنا فوری طور پر شوگر ملز انتظامیہ نہیں خریدتی بلکہ تین سے چار روز تک یہ ٹرالی قطار میں شوگر ملز کے باہر شاہراہ پر کھڑی رہتی ہے۔
اس عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گنے کا وزن کم ہو جائے البتہ اس عمل سے نقصان کسان ہی کو ہوتا ہے پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ گنے کا کانٹے پر وزن ہوتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہے کسان نے اپنا گنا شوگر ملز کے حوالے کر دیا۔ یہ ضرور ہے کہ کسان کو اپنے گنے کی رقم فوری حاصل نہیں ہوتی بلکہ چار سے چھ ماہ کبھی ایک برس تک اس رقم کی ادائیگی میں لگ جاتا ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نامور ترین سیاسی شخصیت کی شوگر ملز سے 2013 سے قبل کی رقم اب تک ادا نہیں ہوئی، البتہ اگر درمیان میں تھرڈ پارٹی آ جائے جوکہ گنے کی خریداری میں کردار ادا کرتی ہے، کسان سے فی من چار سے پانچ روپے کم قیمت پر خرید لیتی ہے اور کسان کو فوری رقم کی ادائیگی کر دیتی ہے۔ اس کیفیت میں کسان کو رقم فوری حاصل ہو جاتی ہے مگر چار سے پانچ روپے فی من کم قیمت پر بدترین استحصال کسان کا اس طرح بھی ہوتا ہے۔
کاٹ کے نام پر 15 سے 30 فیصد تک کم وزن کے روپے کسان کو حاصل ہوتے ہیں یعنی سو من گنا کسان دے گا تو 70 سے 85 من گنے کی قیمت حاصل ہو گی جب پچاس ٹرالی کا لوڈ گنا شوگر ملز میں آ جائے تو پھر گنے کی کریشنگ کا آغاز ہوتا ہے جوکہ اکتوبر و نومبر میں ہوتا ہے۔ گنے کی کریشنگ سے حاصل کردہ جوس بوائلر میں ڈالا جاتا ہے تاکہ یہ گنے کا جوس شیرے کی شکل اختیار کر لے البتہ بوائلر کے نیچے مسلسل آنچ کا ہونا ضروری ہے جوکہ گنے کے بھوسے کو جلا کر حاصل ہوتی ہے البتہ بوائلر کے ساتھ ٹربائن کا چلنا بھی ضروری ہے بوائلر میں مختلف خانے ہوتے ہیں چنانچہ اگر بوائلر میں جوس کو شیرے کی شکل دی جاتی ہے۔
دوسرے خانے میں پانی کا خوب گرم ہونا ضروری ہے تاکہ اس گرم پانی سے اٹھنے والی بھاپ سے برقی رو حاصل کی جا سکے۔ یہ برقی رو شوگر ملز کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ شوگر ملز سے ملحق رہائشی کالونی کے لیے بھی کافی ہوتی ہے گویا شوگر ملز کو برقی رو کا بل بھی ادا نہیں کرنا ہوتا، بہرکیف گنے کے جوس سے حاصل کردہ شیرے سے اول بلیک شوگر حاصل کی جاتی ہے پھر اس بلیک شوگر کو بلیک گڑ کی شکل دی جاتی ہے پھر اس بلیک گڑ کو تیاری کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے تاوقت یہ کہ یہ بلیک گڑ براؤن شوگر کی شکل اختیار نہ کر لے۔
البتہ اس عمل کے دوران مختلف اقسام کے کیمیکلز کا استعمال لازمی شرط ہے۔ براؤن شوگر گویا اول درجے کی دانے دار چینی ہوتی ہے البتہ براؤن شوگر یا دانے دار چینی کے بعد درجہ دوم، درجہ سوم و درجہ چہارم کی چینی تیار ہوتی ہے کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ درجہ چہارم بھی کوئی آخری درجہ نہیں بلکہ اس بعد مختلف درجات کی چینی تیار ہوتی رہتی ہے۔ یہ درجات اس وقت ختم ہوتے ہیں جب پاکستان میں فروخت ہونے والی چینی تیار ہوتی ہے وہ بھی 90 روپے کلو۔ اس چینی کو شوگر ملز ملازمین جو نام دیتے ہیں وہ قابل تحریر نہیں کیونکہ بہرحال یہ کھانے کی چیز ہے۔
براؤن شوگر یا دانے دار چینی و دیگر درجات اعلیٰ چینی بیرون ممالک کو برآمد کر کے کثیر رقم حاصل ہوتی ہے۔ شیرے کو جب گرم کیا جاتا ہے تو اس سے اٹھنے والی بھاپ سے الکحل بھی حاصل کی جاتی ہے یہ الکحل نشہ آور اشیا کے ساتھ ساتھ ادویات میں بھی استعمال ہوتی ہے، البتہ رقم کے حصول کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ شیرے کی آخری شکل جس سے شوگر ملز انتظامیہ کچھ بھی تیار کرنے سے قاصر ہوتی ہے وہ شیرا بھی قابل فروخت ہوتا ہے۔ یہاں ایک اور پارٹی داخل ہوتی ہے جوکہ یہ شیرا کثیر رقم کے عوض حاصل کرکے اس سے بچوں کی ٹافیاں تیار کرتی ہے، بلکہ جو بھوسہ جلانے سے بچ جاتا ہے وہ بھوسہ بھی فروخت کر دیا جاتا ہے البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ عام حالات میں جس شوگر ملز میں 500 ملازمین کام کرتے ہیں سیزن کے دوران ان ملازمین کی تعداد 1500 تک ہو جاتی ہے۔ یہ سیزن پورے سال میں کوئی چار سے پانچ ماہ ہی ہوتا ہے۔
البتہ ان ملازمین کو جوکہ دسمبر و جنوری کی سخت ترین سردی کے موسم میں بھی جون و جولائی کے گرم ترین ماحول میں کام کرتے ہیں، ان ملازمین کو مشکل سے حکومت کی اعلان کردہ اجرت ہی حاصل ہوتی ہے کوئی اضافی رقم نہیں حاصل ہوتی پھر ماسوائے دو نامور شوگر ملز کے دیگر اکثر شوگر ملز ملازمین کو طبی سہولیات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ یہ کہا جاتا ہے شوگر ملز مالکان کو اربوں روپے کی سبسڈی بھی حکومت کی جانب سے ماضی میں دی گئی۔
اس کے باوجود کیفیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ خالص ترین منافع کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک حصہ ملازمین کی اجرت میں جاتا ہے، دوسرا حصہ شوگر ملز مالک کی جیب میں جاتا ہے جب کہ تیسرا حصہ پرزہ جات کی مرمت کے نام پر رکھ لیا جاتا ہے گویا کوئی 33 فیصد ملازمین کی اجرت میں ادائیگی کوئی 6 فیصد مرمت کے کام آتا ہے باقی 60 فیصد منافع شوگر مل مالک کی جیب میں جاتا ہے۔ مقام افسوس و حیرت ہے کہ اس قدر منافع حاصل ہونے کے باوجو د آئے روز چینی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے چینی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ہماری موجودہ پی ٹی آئی حکومت کو اس معاملے میں سخت فیصلے لینے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام مزید اضافہ خوردنی اشیا میں برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے امید ہے، وزیر اعظم صاحب اس مسئلے پر ہمدردی سے غور فرمائیں گے۔