امریکا نے جو دنیا کی واحد سپر پاور کہلاتا ہے، افغانستان میں طالبان نے اسے شرمندگی اور شکست سے دوچار کرکے سب کو حیران اور پریشان کردیا ہے۔
امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں بیس برس تک طالبان سے برسرپیکار رہیں لیکن وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں اوربالآخر واپسی کا محفوظ راستہ مانگ کر افغانستان سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی ہے۔ امریکا کی فوجی طاقت اورجدید ٹیکنالوجی سے کون واقف نہیں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکا اسلحہ اور فوجی سازو سامان افغانستان میں چھوڑ کر انخلا پر مجبور ہو گیا ہے اور جن طالبان کو دہشت گرد کہتا تھا، انھی سے معاہدہ کر کے رخصت ہوگیا ہے۔
امریکا نے دنیا کی کمزور قوموں پر ہمیشہ جنگ مسلط کی ہے۔ پوری انسانیت کی چیخ و پکار کے باوجود اس کی پالیسی تبدیل نہیں ہوتی۔ امریکا نے عالمی اتحادی افواج کے ساتھ افغانستان میں جس بر بریت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی وجہ سے دنیا میں جنگ سے نفرت اور خاص طور پر امریکا سے نفرت عروج پر ہے۔
یہی وہ عالمی رائے عامہ ہے جسے دانش مند لوگ دوسری سپر پاور کا نام دے رہے ہیں اور یہ سپر پاور امریکی سپر پاور کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ عالمی رائے عامہ کے پاس زبردست اخلاقی قوت ہے جب کہ امریکی سپر پاور کے پاس سوائے تباہ کن اسلحے کے کوئی اورقوت نہیں ہے۔
اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکا طاقت میں بے مثال عروج کے باوجود اقوام عالم کی ہمدردی سے محروم ہوگیا ہے اور افغانستان میں شکست کے بعد وہ امریکی جن کی عقل ابھی سلامت ہے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کسی ملک پر قبضہ تو ہم کر سکتے ہیں مگر اس ملک کے عوام کے دلوں پر قبضہ کیسے ہو گا۔ اس وقت تک اس سوال کا جواب یہی مل رہاہے کہ برہم اور ناراض انسانوں کے دلوں پر قبضہ ممکن نہیں ہے اور جب دلوں پر قبضہ نہیں ہوتا تو جسموں پر قبضہ کسی وقت بھی ختم ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا پریشان ہے کہ تین لاکھ افغانوں کو تربیت اور جدید ہتھیار دے جو افغان فوج تیارکی، اس نے افغانستان سے امریکی انخلا شروع ہوتے ہی ہتھیار کیوں ڈال دیے؟ پوری انسانی تاریخ اس کی گواہ ہے اورآج ہم خود اس کے گواہ بن چکے ہیں کہ کسی سپر پاور کا زوال دیکھنا ہو تو اس کی تازہ ترین مثال امریکا ہے۔
امریکا جس نے ویت نام کے جنگلوں میں گوریلا جنگ میں شکست کھا کر وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی تھی وہ بعد میں عراق اور افغانستان کے کھنڈروں پر قابض بھی ہو گیا مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ تادیر اس پر قابض نہیں رہ سکا۔ امریکیوں کے پاس تواپنی آج کی اتحادی اور سابقہ سپر پاور برطانیہ کی حکمت و دانش کا ذرہ بھی موجود نہیں ہے جس نے دنیا پر برسہا برس حکومت کی اور برصغیر کا کوئی بڑا بوڑھا آج بھی یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ اس سے تو انگریز ہی بہتر تھے۔ امریکی ایک ایسی قوم ہیں جونو دولتیے اور تہذیب و ثقافت کی گہرائیوں اور رعنائیوں سے محروم ہیں۔
یہ کیا جانیں کہ جہانبانی کیا ہوتی ہے اور انسانوں کے دلوں کو کیسے جیتا جاتا ہے۔ وہ تو آج کا سب سے بڑا تباہ کن ہتھیار ایٹم بم بھی استعمال کرنے سے نہیں گھبراتے۔ امریکا دنیا کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے، اسی رعونت اور بالادستی کی خواہش نے دنیا کو جگا دیا ہے۔ یہ عالمی بیداری امریکا دشمنی پر مبنی ہے۔
آج امریکا کے علاوہ روس اور چین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا اس وقت دو بلاک میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک امریکا اور اس کے اتحادی اور دوسرا بلاک اس کرہ ارض کے عام انسان ہیں جو پاکستان کے گردو نواح میں اپنی طاقت کو مضبوط کر چکے ہیں، یہی وہ دوسری سپر پاور ہے جو امریکا کو للکار رہی ہے۔ ہم آپ دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں لیکن امریکا نے اپنی تباہی کا آغاز خود ہی کر دیا ہے اور اپنی بڑائی کے سر بلند میناروں سے خود ٹکرانا اور انھیں مسمار کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ واضح نظر آرہاہے کہ خدا کی یہ زمین امریکیوں پر تنگ ہوتی جارہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب امریکیوں کو امریکا سے باہر تو کجا انھیں امریکا کے اندر بھی پناہ نہیں ملے گی۔ اتنی بڑی طاقت اوراتنی بڑی تنہائی کبھی کسی سپر پاور کو نہیں ملی۔
امریکی دانش مندی اور امریکی دماغ کا تو یہ عالم سب پر عیاں ہو چکا ہے کہ وہ بیس برس تک نہتے طالبان کے ساتھ گوریلا جنگ کی صحیح منصوبہ بندی نہیں کر سکا۔ امریکا اور نیٹو کے اندازے اور منصوبے غلط ثابت ہوئے ہیں اور سبکی ان کے حصے میں آئی ہے۔ انھیں کون سمجھائے کہ بم اور بندوق میں عقل نہیں ہوتی، وہ انسانوں میں ہوتی ہے جو کسی حکمت اور سمجھ کے ساتھ انھیں استعمال کرتے ہیں اور جن کے دل ودماغ غرور اور تکبر کی چربی میں بند نہیں ہوتے وہ عوام کے جسموں کے بجائے دلوں پر قبضہ کرتے ہیں۔