Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bijli Ke Na Qabil e Bardasht Bill Aur Awam Ki Cheekhain

Bijli Ke Na Qabil e Bardasht Bill Aur Awam Ki Cheekhain

وہی ہو رہا ہے جس کی توقع کی جارہی تھی اور ماہرین ڈھکے چھپے الفاظ میں خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔

ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے جنوری 2022 تک پاکستانی عوام کے لیے بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں تین روپے تک اضافہ کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے جب کہ نیپرا کے چیئرمین نے "خوشخبری " سنائی ہے کہ بجلی بلوں میں اضافہ سے بہت جلد عوام کی چیخیں نکلیں گی۔

انھی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا تھا کہ بجٹ کے موقعے پر تو حکومت نے بڑھک مار دی تھی کہ ہم نے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ رد کر دیا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ پٹرول کی قیمت میں بھی بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اب بجلی کی قیمتوں میں بھی عنقریب اضافہ کا مژدہ سنایا جائے گا۔

پاکستان کی معیشت ایک مقروض ملک کی معیشت ہے جس کا تما م تر دارو مدار قرضوں کا مرہون منت ہے اور جو قرض فراہم کرتے ہیں ان قرضوں کی وصولی کے لیے ان کے اپنے مطالبات اور شرائط ہوتی ہیں جن پر مقروض ملکوں کو طوہاً کراہاً عمل کرنا پڑتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔ عوام کے لیے بجلی کے نرخ پہلے ہی آسمان کو چھو رہے ہیں اور اب حقیقت میں متوسط اور غریب طبقے کے لیے بجلی کا استعمال ایک عیاشی بن گیا ہے۔ بجلی کے بل زیادہ تر عوام کے ذمہ ہیں، اشرافیہ کے لیے تو مہنگائی شاید کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن جہاں بات متوسط اور غریب طبقے کی ہو تو آج کے بجلی کے بل ان کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں اور اس پر ان میں مزید اضافہ کی خبر سنائی جارہی ہے۔

عوام کو عموماً بجلی کے محکمے سے استعمال سے زیادہ بلوں کی شکایت رہتی ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کہ جتنی بجلی سسٹم میں شامل ہوتی ہے اتنا بل وصول نہیں ہوتا، اس لیے لائن لاسز اور چوری شدہ یونٹس کا بل بھی بجلی کے میٹروں کی رفتار تیز کر کے وصول کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ محکمے کو بجلی کی سپلائی کے ناقص طریقہ کار اور فرسودہ نظام سے جو نقصان ہوتا ہے، اس کو میٹروں کی تیز رفتاری کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ بجلی کی چوری سے جو نقصان ہوتا ہے، اس کا بھی تھوڑا بہت ازالہ ہو جاتا ہے۔

گرمیوں کے موسم میں بجلی کمپنیوں کا عملہ انتہائی مستعدی اور پھرتی کا مظاہرہ کرتا ہے اور گھر گھر جا کر میٹر چیکنگ کی جاتی ہے، ان دنوں بھی خانہ بہ خانہ میٹروں کی چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گزارش یہ ہے کہ یہ چیکنگ صرف اس بات کی نہ کی جائے کہ میٹر سے کوئی چھیڑ چھاڑ تو نہیں کی گئی بلکہ اس چھیڑ چھاڑ کا ازالہ بھی کیا جائے جو محکمہ نے خود کر رکھی ہے۔

اگر میٹر خراب نکل آئے تو کسی نامعلوم تخمینہ کے تحت اوسط بل بھیج دیا جاتا ہے جو بہت نہیں بہت ہی زیادہ ہوتا ہے، پھر جب صارف دہائی مچاتا ہوا حاضر ہوتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ درخواست دے جاؤ اور ساتھ ہی بل جتنا بھی ہے ادا کر دو، پھر تمہاری فریاد سنی جائے گی، اگر افسر مہربانی کرے تو اس بہت زیادہ بل کی ایک آدھ قسط بنا کرصارف کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ گنتی کے چندہوشیار لوگوں کو چھوڑ کر عام آدمی میٹر کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے، اسے میٹر کے تکنیکی اسرارورموز کا کیا پتہ۔ یہ تحقیق ضروری ہے کہ اگر میٹر خراب ہے تو کیا وہ صارف نے خراب کیا ہے یا یہ مشین ویسے ہی خراب ہو گئی ہے جو ایک قدرتی بات ہے۔ آج کے شب و روز میں بجلی کے بغیر گزارا نہیں چنانچہ جیسے تیسے بل تو ادا ہو جاتا ہے لیکن ناکردہ جرم کی سزا بے قصوروں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ بے ایمانی کی سزا صرف اس کو ملنی چاہیے جو سزاوار ہے نہ کہ اس کو جس کے گلے میں پھندا آسانی سے ڈالا جا سکے۔

انصاف کی دعویدارحکومت سے عوام نے یہ امید یں باندھ رکھی تھیں کہ زندگی کے جن شعبوں میں ان سے ایک مدت سے زیادتیاں کی جارہی ہیں، نئی حکومت ان کا ازالہ کرے گی اور خاص طور پر بجلی جو ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے فی یونٹ نرخ میں اضافے سے پہلے عوام کو اس پرانی دھاندلی سے نجات دلائی جائے گی لیکن ابھی تک عوام کے ساتھ دھاندلیاں جاری ہیں اور ان کے ازالہ کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی بلکہ مزید بوجھ ڈال کر چیخیں نکالنے کی نوید سنائی جارہی ہے۔ ماضی میں واپڈا کے حکام اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ وہ میٹروں کو تیز رکھواتے ہیں۔

اس لیے اب صرف یہ پتہ کرنا ہے کہ رفتار کتنی بڑھائی گئی ہے تا کہ اسے درست کیا جاسکے اور اگر یہ رفتار درست ہو جائے تو ممکن ہے کہ بجلی کے ناقابل برداشت بل قابل برداشت ہو جائیں اور عوام ذہنی مریض بننے سے بچ جائیں۔ پاکستانی عوام انصاف کی حکومت کے سپرد ہیں اور اب یہ انصافی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کے مطابق عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہے یا بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے جھٹکے دے کر ان کی چیخیں نکلواتی ہے۔