کہا جاتا ہے کہ مضبوط اپوزیشن اچھی جمہوریت کی شرط ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے نام پرجو ڈاکے ڈالے گئے اس کی وجہ سے ہمارے ہاں نیک نام اپوزیشن کا کوئی وجود نہیں ہے اوریہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط نہ کر سکی اور ہم جمہوریت اورآمریت کا مزہ ساتھ ساتھ چکھتے رہے۔
دنیا بھر میں الیکشن ایک معمول کی کارروائی ہے لیکن ہمارے ہاں جو بھی الیکشن منعقد ہوتا ہے سیاسی پارٹیاں اس کو متنارعہ بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتی ہیں اور یوں عوام کی نظروں میں ہر الیکشن مشکوک ہو جاتا ہے اور اب تو یہ عام بات ہو گئی ہے کہ جس پارٹی کی بھی حکومت ہو وہ اپنے دور اقتدار میں ہونے والے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش ضرور کرتی ہے۔
یونین کونسل کے بنیادی الیکشن سے شروع ہو کر ملک کے اعلیٰ ترین ایوان سینیٹ تک کے انتخابی نتائج مشکوک بنا دیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کوئی عام انتخاب ایسا نہیں ہوا جس کی شفافیت پر انگلی نہ اٹھائی گئی ہو اور اسے دھاندلی زدہ قرار نہ دیا گیا ہو۔ ہارنے والی پارٹی اپنی پٹاری میں سے فٹا فٹ دھاندلی کے الزامات نکال لیتی ہے۔ الیکشن کے عمل کا مکمل دارومدار الیکشن کمیشن کے سپرد ہے جس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ الیکشن کے عمل کی شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرے اور آئین میں وضح کردہ انتخابی قوانین پر ان کی اصل روح کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دباؤ کے بغیر عمل درآمد کرائے۔
پاکستان میں انتخابات کے پیچیدہ عمل کو آسان بنانے اور ان میں شفافیت لانے، اصلاحات اور نئی قانون سازی کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کو تمام پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کے لیے خط لکھا ہے۔ ان کا مقصد پاکستان کے انتخابی نظام میں اصلاحات کر کے آیندہ الیکشن کے عمل کو شفاف بنانا ہے۔
الیکشن میں شفافیت کے عمل کا ایک نظارہ ہم سینیٹ انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔ حکومت کی یہ کوشش اور خواہش تھی کہ سینٹرز منتخب کرنے کے لیے شو آف ہینڈ کا طریقہ کار اپنایا جائے لیکن الیکشن کمیشن نے اعلیٰ عدالت میں آئین میں درج قوانین کا سہارا لیتے ہوئے خفیہ طریقہ کار کے مطابق الیکشن منعقد کرانے کے لیے زور دیا اور سپریم کورٹ نے اس کی اجازت بھی دے دی۔ اپوزیشن کی پارٹیوں کا بھی یہی موقف رہا کہ الیکشن کا طریقہ کار خفیہ ووٹنگ ہی رہے۔
اس خفیہ طریقہ کا وقتی طور پر تو متحدہ اپوزیشن کو فائدہ پہنچ گیا اور وہ اپنا نمایندہ منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئے لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں متحدہ اپوزیشن عددی برتری کے باوجود الیکشن ہار گئی۔ ایک مغربی دانشور کا کہنا ہے کہ ووٹ کی پرچی سے زیادہ اہم اس کی درست گنتی ہوتی ہے۔
اس درست گنتی سے اس کی مراد غالباً وہ الیکشن ہیں جن میں پرچیوں کی اصل تعداد کچھ ہوتی ہے مگر وہ برآمد کچھ اور ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں اصلاحات اور نئی قانون سازی انتہائی ضروری ہے تا کہ کوئی بھی شخص چور دروازے سے منتخب نہ ہو سکے۔ ہمارے پڑوس میں پھولن دیوی ڈاکو تھی لیکن وہ پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہو گئی۔
پاکستان میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں کہ الیکشن کا امیدوار کوئی بھی ہو خواہ وہ کل کی پھولن دیوی ہی کیوں نہ ہو اسے الیکشن لڑنے کا حق ہے۔ کرپشن کی یہی وہ بنیادہے جو قومی سطح پر اعلیٰ ترین ایوانوں میں بھی پھیل چکی ہے اس کی سر پرستی کرنے بلکہ اس میں حصہ لینے والے تو بہت ہیں مگر اس کو روکنے والا کوئی نہیں حسب توفیق ملک کے تما م طبقات اس میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالتے ہیں۔
پروپیگنڈے سے آزاد ہو کر غور کریں کہ اگر اپنا ووٹ بیچنا جائز ہے تو پھر اس جرم میں ہماری صوبائی اور قومی اسمبلیاں اور سینیٹ خالی ہو سکتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر ارکان اپنا ووٹ کسی نہ کسی کج کلاہ کی نذر کر چکے ہیں اور معاوضوں میں وزارت اور ایسی دوسری مراعات حاصل کرتے ہیں کیونکہ سرکاری مراعات صدقہ جاریہ بن کرجاری رہتی ہیں۔
ماضی میں پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت مراعات کے عوض ووٹ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تھی آج کی تحریک انصاف نے اس کی روایت ڈالی ہے اور اپنے ان جملہ اراکین اسمبلی کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہے جنھوں نے الیکشن میں اپنا ووٹ ادھر اُدھر کیا ہے لیکن بات وہیں پر آکر ٹھہر جاتی ہے کہ اس ہارس ٹریڈنگ میں سبھی شامل رہے ہیں جو آج خریدارہیں وہ کل خود ان سے پہلے اپنی قیمت لگوا چکے ہیں اور اس کے عوض اقتدار میں آچکے ہیں۔ اس لیے کون ہے جس کا دامن صاف ہو اور انھیں پکڑنے کا فیصلہ کرے، بات وہی ہے کہ …
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
آئین میں کوئی بھی تبدیلی جمہوری قوتوں کی مرہون منت ہوتی ہے اور ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں اس وقت ملک کی اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے عمل میں شفافیت کے لیے حکومت کے علاوہ ملک کی تما م سیاسی پارٹیوں کو اتفاق رائے سے انتخابی قوانین میں تبدیلیوں کا ڈول ڈالنا چاہیے اور فیصلوں میں آزاد ایک مکمل آزاد اور خود مختارالیکشن کمیشن پر متفق ہو جانا چاہیے تا کہ آیندہ کسی سیاسی پارٹی کو الیکشن کے عمل پر انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو۔
کیا پاکستانی قوم کوئی ایسا خوبصورت وقت دیکھے گی یا نہیں کیونکہ بدقسمتی سے اسے کوئی ایسا لیڈر نہیں ملاجو ذاتیات سے بالاتر ہو کر اس قوم کا سوچے اس لیے قوم بھی کسی لیڈر پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اس کو کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو اسے اس دھند سے نکال کر روشنی میں لے جائے۔