ہم شاید وہ آخری نسل ہیں جنھوں نے دیہات کے اسکولوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا ہے، لکڑی کے کانے سے تراشے قلم کو سیاہی کی دوات میں ڈبو کر تختی پر لکھا ئی کی ہے۔ قلم دوات کا رشتہ ہم نے اپنے وقتوں میں برقرار رکھا لیکن ہمارے بعد آنے والے طالب علموں کو خوبصورت قلم میسر آگئے اور تختی پر خوش خط لکھائی اب قصہ پارینہ ہو گئی ہے۔
ہم اس نسل سے ہیں جنھوں نے ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا ہے، استادوں سے ڈنڈے کھائے ہیں خاص طور پر سردیوں کی یخ بستہ صبحوں میں جب استاد کا ڈنڈا ہاتھ پر پڑتا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہاتھ سے کھال الگ ہو گئی ہو لیکن مجال ہے کہ کبھی اُف تک بھی کی ہو اور استاد کو غصیلی نظروں سے دیکھا ہو کیونکہ ہمیں اپنی غلطیوں کا علم ہوتا تھا، اس لیے استاد کی مار برداشت کرتے تھے۔
بعد میں "مار نہیں پیار " کا کلچر متعارف کرایا گیا جس نے استادوں اور شاگرد کے درمیان دوری پیدا کر دی اور شاگردوں نے استادوں کی جگہ لے لی۔ ہم اس زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے اسکولوں میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ دودھ پیا ہے۔
خشک دودھ کے بڑے بڑے تھیلے اسکولوں میں طالب علموں تک پہنچائے جاتے تھے۔ استاد ایک دن پہلے بتا دیتے تھے کہ کل اسکول میں دودھ فراہم کیا جائے گا۔ اس دن ہم سب خوشی خوشی اسکول جاتے تھے بلکہ گھر سے گلاس بھی ساتھ لے جاتے تھے تا کہ دودھ پینے کے لیے انتظار نہ کرنا پڑے۔ گھڑے کے پانی میں دودھ کوحل کر کے ایک ہی گلاس میں تمام طالب علم باری باری پیتے تھے کہ اس زمانے میں نہ توڈسپوزیبل گلاس دستیاب تھے اور نہ ہی منرل واٹر کا دور دور تک کہیں ذکر تھا۔
خشک دودھ کے یہ بڑے تھیلے اس زمانے میں یقیناً کسی غیر ملک کی امداد ہوتی ہو گی۔ صاف ستھری دیہاتی زندگی تھی، کنویں کا فرحت بخش پانی کسی درخت کی گھنی چھاؤں میں مٹی کے گھڑوں میں ٹھنڈا رہتاتھا اور گھڑے کے اوپر مٹی کا پیالہ، یہ فرحت بخش پانی نوش کرنے کے لیے موجود ہوتا تھا جس میں سے مٹی کی سوندی سوندی خوشبو بھی آتی تھی۔
گاؤں کی زندگی میں بچے کھل کر کھیلتے تھے اور آج بھی کسی حد تک خوف و ہراس کے بغیر یہی معمول جاری ہے جو ان کی جسمانی نشو ونما میں اہم کردار اداکرتا ہے۔ اسی سادگی کے زمانے میں اسکول میں سال میں ایک یا دو مرتبہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے حکومتی ٹیمیں دورہ کرتی تھیں جن کی اطلاع اساتذہ عموماً طالب علموں کو نہیں دیتے تھے کہ اس دن طالبعلم ٹیکے لگنے کے خوف سے چھٹی کر جاتے تھے چونکہ یہ ٹیکے ان کی صحت کی حفاظت کے لیے انتہائی ضروری تصور کیے جاتے تھے اور آج بھی ان کی اہمیت مسلمہ ہے، اس لیے استادوں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان کے بچے یہ حفاظتی ٹیکے لگوا کر بیماریوں سے محفوظ رہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک خوشگوار صبح اسکول پہنچتے ہی اطلاع مل گئی کہ آج ٹیکے لگانے والی ٹیم آرہی ہے، استاد ایسے موقعوں پر اسکول کا مرکزی دروازہ بند کرا دیتے تھے تا کہ طالب علم کسی بہانے سے اسکول سے باہر نہ چلے جائیں۔ اس ٹیکے کو ہماری پنجابی زبان میں انگا یا پمبیری ولا ٹیکہ کہا جاتا تھا جس کا نشان میرے بازو پر آج بھی موجود ہے۔ ان بھلے وقتوں میں انگا لگنا ایک تکلیف دہ عمل تصور کیا جاتا تھا اور جہاں تک میری یاد کام کرتی ہے اسکول میں لگنے والے ان انگوں کے علاوہ بچوں کو ان کے والدین اور کوئی حفاظتی ٹیکہ نہیں لگواتے تھے۔
مجھے ان انگوں کی یاد کورونا کی موذی وبا نے دلائی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ لاکھوں انسان اس وباکا شکار ہو کر زندگی کی ڈورسے آزاد ہو چکے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس کا شکار ہونے کے باوجود سانس کی ڈور برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں کچھ پولیس اہلکار عملے کے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے اور قطار میں کھڑے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنا ویکیسنیشن فارم بنوانے لگے۔
میں نے عملے کے متعلقہ انچارج کو بلا کر اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تو اس نے پولیس اہلکاروں کو ایک کاؤنٹر پر اکٹھا کر دیا اور بغیر لائن کے جو کام تمام کاؤنٹرز سے ہو رہا تھا، اسے ایک کاؤنٹر تک محدود کر دیا لیکن اس کو ختم نہیں کیا، یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے، عوام پر خاص کو ترجیح دی جاتی ہے جس سے ہم ہر جگہ دوچار رہتے ہیں، یہی کچھ اس مرکز میں بھی دیکھنے میں آیا۔
لاہور جیسے بڑے شہر میں ایسا اعلیٰ انتظام کر رکھا ہے کہ حقیقی معنوں میں گھنٹوں کا نظر آنے والا ویکسینیشن کا عمل منٹوں میں مکمل ہو رہا ہے۔ اب یہ پاکستانی عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت کے اس عمل میں شریک ہوں، توہمات، ڈراور خوف کے بغیر جلد از جلد کورونا ویکسین لگوا ئیں کیونکہ حفاظتی عمل سے ہی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ زندگی کی حفاظت کا حکم ہمیں دین میں دیا گیا ہے۔ انسان کے پاس زندگی خدا کی امانت ہے اوراس امانت کی حفاظت ہم پر واجب ہے۔