وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کے امیر اور بااثر ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کرپٹ اشرافیہ کی لوٹی دولت واپس کریں ورنہ معاش کی خاطر امیر ممالک کوہجرت کرنے والوں کو روکا نہیں جا سکے گا اور ان کی ہجرت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے دیواریں تعمیر کرنا پڑیں گی۔
جناب وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں اقوام متحدہ پر مسئلہ کشمیر کے حل، پاک بھارت جنگ، اسلامو فوبیا پر مکالمہ اور طالبان حکومت کی مدد کرنے پر زور دیا ہے۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں ان تمام اہم مسائل پر بات کی ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے غریب ممالک کو درپیش ہیں۔ انھوں نے عالمی رہنماؤں کو پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر غریب ممالک کے ان اہم مسائل سے صر ف نظر نہ کریں بلکہ ان کے حل کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے جس کی نشاندہی عمران خان نے کی ہے۔
انھوں نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثر و رسوخ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح کمپنی کی حکومت نے برصغیر کی دولت لوٹ کر تاج برطانیہ کا خزانہ بھرا، اسی طرح آج بھی غریب ممالک کی کرپٹ اشرافیہ دولت لوٹ کر انھی بڑی طاقتوں کے بینکوں میں جمع کر رہی ہے اور اس لوٹی گئی دولت کی واپسی پیچیدہ قوانین کی وجہ سے ناممکن ہے۔ اس لوٹ مار کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ غریب ممالک غریب تر ہوگئے ہیں، اگر ان بااثر ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے عوام کی لوٹی گئی دولت واپس نہ کی تو پھر ان ترقی پذیر ملکوں میں رہنے والے امیر ملکوں کو ہجرت پر مجبور ہو جائیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ دوسرے پاکستانی لیڈر ہیں جو دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں اور دنیا کو واضح پیغام دیتے ہیں۔ دونوں میں یہ مماثلت ہے کہ دونوں نے ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھی، غریب کے دکھوں کے مداوے کا نعرہ بلند کیا جو روٹی کپڑا مکان سے شروع ہو کر نئے پاکستان تک پہنچ چکا ہے۔
بھٹو صاحب نے پاکستان کی سیاسی دنیا کو تہہ و بالا کر دیا تھا، جماندروں لیڈروں کی جگہ نئی قیادت متعارف کرائی لیکن ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ تو بھر پور انداز میں لڑتے رہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا الزام بھی انھی کے سر آیا اور جن سیاسی جغادریوں کو انھوں نے سیاست میں مسترد کیا، کچھ عرصہ بعدان کو ہی اپنا ہم ساتھی بنا لیا۔
عمران خان نے بھی تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے نوجوان قیادت کے ذریعے نیا پاکستان بنانے کا عزم کیا لیکن ان کو شاید بات سمجھ آگئی یا سمجھا دی گئی کہ جب تک حلقے کی سیاست نہیں کریں گے وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گے، اس لیے انھوں نے حلقے کی سیاست کو نوجوان قیادت پر ترجیح دی اور آج ان کی حکومت میں انھی لوگوں کی اکثریت ہے جو ان سے پہلے کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں یعنی وہ بھی بالآخر پرانے سیاستدانوں کی زلفوں کے اسیر ہو گئے اور نیا پاکستان پرانے سیاستدانوں کے حوالے کر دیا۔
وزیر اعظم عمران خان جب بھی کسی عالمی فورم پر اظہار خیال کرتے ہیں تو کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں، ان کی پر اثر اور پر مغز تقاریر حقیقت کے قریب تر ہونے کی وجہ سے سیدھی دلوں پر اثر کرتی ہیں، اسی لیے ان کاعالمی فورم پر خطاب خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اپنا موقف نہایت دلیری کے ساتھ بیان کرتے ہیں جس کی باز گشت ان کے خطاب کے کئی دنوں بعد تک دنیا کوسنائی دیتی رہتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ترقی پذیر ممالک کے لیڈروں کی بات کو دنیا وہ اہمیت نہیں دیتی جس کے وہ حقدار ہیں۔
اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے مطالبات پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو تا کیونکہ اگر ان غریب ممالک کی مشکلات کو حل کر دیا جائے گا تو پھر ان امیر ممالک کا کیا بنے گا اوروہ اشرافیہ کہاں جائے گی جو اپنے غریب ملکوں میں لوٹ مار کر کے ان امیر ملکوں کی معیشت کو مزید ترقی کی جانب لے جاتی ہے۔ یہی وہ اصل مسئلہ جو امیر اور غریب ممالک کے درمیان حائل ہے۔
طاقتور ملک ہمارے لیڈروں کی گفتگو کو اہمیت نہیں دیتے اور غریب ملکوں کو اپنا باج گزار رکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ایک ایسے عالمی لیڈر کی گفتگو ہے جو دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے انھوں نے مسئلہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں پر بھارتی حکومت کی جانب سے امتیازی قوانین کو بھی دنیا کے سامنے رکھا۔ سب سے اہم بات انھوں نے اسلامو فوبیا کے متعلق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام ایک امن پسند دین لیکن اس کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔
اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کا بھی یکساں خیال رکھا گیا ہے۔ اسلامو فوبیا کے تدارک کے لیے عالمی مکالمہ شروع کرانا وقت کی اشد ضرورت ہے تا کہ اقوام عالم کو یہ علم ہو سکے کہ اسلام کی اصل روح کیا ہے اور جو حلقے ایک پر امن مذہب کو دنیا کے سامنے ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں، ان کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے، جب تک ایسا نہیں کیا جاتا، دنیا بھر میں مسلمان اسلامو فوبیا کا شکار بنتے رہیں گے اورخاص طور پر بھارت میں بیس کروڑ مسلمانوں کو یہ اسلامو فوبیا کی بد ترین شکل ہے۔
قطع نظر ان حالات کے جن سے پاکستانی عوام گزر رہے ہیں اور مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، عمران خان کی عالمی سطح پر مقبولیت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے عالمی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں جو غیر مسلم اوردنیا کے طاقتور معاشی ممالک اور سپر پاور امریکا کے سامنے کھل کر بات کرتے ہیں اور اپنا مقدمہ عالمی عدالت میں نہایت مدلل انداز اور کامیابی سے پیش کرتے ہیں جو اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ خطے کے بدلتے حالات میں پاکستان کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے اور سرِدست یہ کردار عمران خان نے نبھانا ہے۔