عوام سے وصول شدہ ٹیکسوں سے ہٹو بچو کی پکار سے عوام کو ہی زحمت سے دوچار کرنے کے بعد وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ ملک میں پروٹوکول کلچر کو ختم کر دیا جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ آیندہ کسی نجی تقریب میں سیکیورٹی اور پروٹوکول کے ساتھ شرکت نہیں کریں گے۔
اس ضمن میں آیندہ ہفتے کابینہ کے اجلاس میں جامع پالیسی کی منظوری دی جائے گی۔ انھوں نے وزراء اور گورنر حضرات کے لیے بھی سیکیورٹی اور پروٹوکول پالیسی کا جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ پروٹوکول کے ذریعے جاہ و جلال کووزیر اعظم نے نوآبادیاتی میراث قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمہ کا اعلان کیا ہے۔
برصغیر کے عوام صدیوں سے غلامانہ زندگی گزرانے کے عادی رہے ہیں۔ پہلے مغل بادشاہت اور بعد میں انگریز سرکار نے برصغیر کے عوام کو رعب و دبدبہ کے شکنجے میں جکڑے رکھا۔ انگریزوں نے گورا صاحب کے لیے الگ قوانین اور کالے ہندوستانیوں کے لیے الگ قوانین نافذ کر رکھے تھے۔
انگریز سے چھٹکارا پانے کے بعد برصغیر کے عوام انگریز کی باقیات دیسی اشرافیہ کے حوالے ہو گئے جو اپنے رعب و دبدبہ کو برقرار رکھنے کے لیے پروٹوکول کا استعمال اپنا حق سمجھتی ہے لیکن ہم جیسے درمیانے درجے کے لوگ بھی کسی سرکاری دفتر اور ایئر پورٹ وغیرہ پر پروٹوکول کے چکر میں الگ اور ممتاز نظر آنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پروٹوکول ہماری گھٹی میں پڑ چکا ہے۔ وزیر اعظم ہوں یا صدر مملکت، وزراء اعلیٰ ہوں یاگورنر صاحبان، وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی کا تو کوئی شمارہی نہیں ہے ان سیاستدانوں کے علاوہ انتظامی مشینری بھی ہٹو بچو پر عمل پیرا رہتی ہے اور جہاں سے ان کا گزر ہوتا ہے وہاں عام شہری کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ میں لاہور کا رہائشی ہوں، اس لیے اسی شہر کی بات کرتا ہوں کیونکہ میرا شمار بھی پروٹوکول زدگان میں ہوتا ہے۔
ہر روز میرا واسطہ سائرن بجاتی تیز رفتار گاڑیوں سے پڑتا ہے جن میں سوار باوردی اہلکارجدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں اور طوفانی رفتار سے لاہور کی خوبصورت شاہراہوں سے گزرتے ہوئے میں انھیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوں اور اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کاش میں بھی کبھی لاہور کی سڑکوں پر اسی تیز رفتاری سے گاڑی بھگا سکتا لیکن پھر فوراًیہ سوچ غالب آجاتی ہے کہ میرا تعلق تو عوام سے ہے اور میں اس اشرافی طبقے سے تعلق نہیں رکھتا جس کو سو خون بھی معاف ہیں۔
ایسا ہی مشاہدہ اکثر موٹر وے پر بھی ہوتا ہے جہاں پر رفتار کی ایک حد مقرر ہے اور جو ڈرائیور اس حد سے متجاوز کرتا ہے، موٹروے پولیس کا چاک و چوبند عملہ کیمرے کی مدد سے اس کی گاڑی کی رفتار کا تعین کر لیتا ہے اور اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے لیکن اسی موٹر وے پر اکثر انتہائی تیز رفتار ہوٹر بجاتی گاڑیوں کے قافلے چشم زدن میں آپ سے آگے نکل جاتے ہیں۔
بات حکومتی اور انتظامی اشرافیہ کے پروٹوکول سے شروع کی تھی جن کا یہ پورا ملک ملکیت ہے وہ جہاں چاہئیں تشریف لے جائیں، نہایت آرام دہ ہوائی جہاز اور جدید ترین ہیلی کاپٹر ان کے منتظر رہتے ہیں اور ہر شہر میں محفوظ ترین ماحول تیار ملتا ہے۔ لاہور شہر پاکستان کا دل ہے اور جب یہاں کسی وی وی آئی پی کی آمد ہوتی ہے تو یہ شہر عملاً بند ہوجاتا ہے چونکہ تاریخی مال روڈ ہمارے وی وی آئی پی صاحبان کی گزر گاہ ہے جب مال روڈ بند ہے تو سمجھیں کہ پورا لاہور بند ہے کیونکہ جب ٹریفک کا رخ بدلا جاتا ہے تو ٹریفک جام ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے باقی ماندہ سڑکوں پر بھی گاڑیاں کے معمول سے ہٹ کر آنے کی وجہ سے چلتی کم اور کھڑی زیادہ رہتی ہیں۔
وزیر اعظم صاحب کے بقول کسی نجی تقریب میں شرکت کی صورت میں پروٹوکول نہیں ہوگا لیکن یہ بات کون سمجھ پائے گا کہ جب تک کسی اہم فرد کے ساتھ وزیر اعظم، صدر یا کسی اور اعلیٰ حکومتی عہدے کا دُم چھلا لگا ہو گا تو وہ تقریب نجی کیسے کہلائے گی کیونکہ جس تقریب میں کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار مدعو ہو چاہے وہ نجی ہی کیوں نہ ہووہ اشرافیہ کی تقریب بن جاتی ہے اور لا محالہ پروٹوکول بھی ایسی تقریبات کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس لیے آپ سب خاطر جمع رکھیں، یہ سب زبانی جمع خرچ کی باتیں ہیں جو اس سے پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں۔
وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور پروٹوکول کی بندش کے نعرے ہم پہلے بھی سنتے رہے ہیں، آج بھی سن رہے ہیں اور یار زندہ صحبت باقی والا معاملہ رہا تو آیندہ بھی سنتے رہیں گے۔ اس ضمن میں نہ تو پہلے کبھی ٹھوس اقدامات کیے گئے اور نہ آیندہ عملاً ایسی کسی مہم جوئی کی توقع ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک کی اشرافیہ انھی جھوٹے سہاروں کے ذریعے زندہ رہتی اوراپنی تام جھام برقرار رکھتی ہے، اس کا اعلیٰ ترین مظاہرہ آپ کو پاکستانی ایئر پورٹس پر نظر آتا ہے جہاں پر ہر محکمے کا ہر اہلکارآپ کو پروٹوکول میں مصروف نظر آئے گا اور جن کووہ پروٹوکول کے سہارے عام آدمی کی قطاروں سے الگ کر کے کسی وی آئی پی لاؤنج کے آرام دہ اور د بیز صوفوں کے سپرد کر دیتا ہے اور صاحب وہاں کافی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہی صاحبان بیرون ملک ایئر پورٹس پر اپنے سامان کی ٹرالیاں بھی خود دھکیلتے ہیں اور ان کے بھاگ کر بس یا ٹرین میں سوار ہونے کا نظارہ بھی ہم کرتے رہتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نہ جانے کس ترنگ میں انقلابی باتیں کر جاتے ہیں جن پر عملدرآمد مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے لیکن اس ترنگ کے باوجود بھی ہمیں اچھائی کی امید اور توقع رکھنی چاہیے۔
نجی تقریبات کے علاوہ سرکاری تقریبات کے موقع پر بھی پروٹوکول ممنوع ہونا چاہیے تا کہ ہمارے ارباب اختیار خود مشاہدہ کریں کہ سڑکیں کسی وی آئی پی کے گزرنے کی وجہ سے بند کر دی جائیں تو عوام کی مشکلات دو آتشہ ہوجاتی ہیں۔ بہر حال وزیر اعظم کا پروٹوکول پر پابندی کااعلان دیر آید درست والا معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے اور خدا کرے یہ درست ہی ہو اور جو پا لیسی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے اس پر اس کی روح کے مطابق عمل بھی کرایا جائے۔ اللہ خیر کرے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین ثم آمین۔)