پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کے سیاسی اہداف ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتے لیکن سب پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں حکومت کی مخالفت میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں کا اتحاد بھی آگ اور پانی کے ملاپ کا معاملہ رہا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے وارثتی لیڈر بلاول بھٹو زرداری اور محترمہ مریم نواز چند ماہ پہلے تک اپوزیشن اتحاد میں اس طرح شیر و شکر ہو گئے تھے کہ مریم نواز گڑھی خدا بخش میں جئے بھٹو کے نعرے پر داد دیتی نظر آئیں اور بلاول بھٹو رائے ونڈ میں لاہوری کھابوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ لیکن مطلب کی یہ دوستی زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوئی اور پیپلز پارٹی نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد میں جتنے بھی لیڈر صاحبان ہیں وہ سب وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ وزیر اعظم تو کسی ایک نے منتخب ہونا ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو بہت جلد اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ آیندہ حکمرانی کے لیے نواز لیگ کی راہ ہموار کر رہے ہیں، اس لیے انھوں نے اپوزیشن اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
پیپلز پارٹی کی بے وفائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ اب ایک بار پھر اپوزیشن نے انگڑائی لی ہے۔ انھوں نے تحریک کے دوسرے مرحلے میں پہلا جلسہ کراچی میں منعقد کیا ہے۔ میاں شہباز شریف بھی کراچی پہنچے ہیں جہاں پر انھوں نے اپنے کارکنوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں اورمزار قائد پر میڈیا نمایندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مفاہمت اور مزاحمت کی سیاست کے بجائے 2023 میں شفاف الیکشن اور قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے جس کا بظاہر مطلب یہی نکلتا ہے کہ اپوزیشن کی حکومت مخالف موجودہ تحریک میں بھی کوئی دم خم نہیں ہے، اس لیے وہ آیندہ الیکشن کی شفافیت پر زور دے رہے ہیں۔
وزرائے اعظم کی جو تعداد اس ملک میں موجود ہے، ان میں ایک نام میاں شہباز شریف کا بھی ہے، ان کی قسمت کب کھلتی ہے، اس کا انحصار ان کے بھائی پر ہے جو لندن سے پارٹی کنٹرول کر رہے ہیں اور مزاحمت کے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں جب کہ شہباز شریف مفاہمتی سیاست کے حامی ہیں۔ اسی گو مگو کی سیاست میں عوام کا ذہن بھی چکرا گیا ہے اور وہ ابھی تک یکسو ہو کر یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ وہ کس کے بیانیے کی حمایت کریں اور اپنا وزن کس کے پلڑے میں ڈالیں۔
اگر نواز لیگ کی سیاست اسی نہج اور ڈگر پر چلتی رہی تو پھر ان کا ووٹر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ آیندہ انتخابات میں وہ کس سیاسی جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دے۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وقت کے ساتھ پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست دم توڑ چکی ہے اور اب ووٹر نظریات سے نکل آیا ہے اور اس کا نظریہ صرف دو وقت کی روٹی رہ گیا ہے جس کے حصول کو ہر دور حکومت میں مشکل سے مشکل تر بنایا جاتا رہا ہے۔
موجودہ حکومت نے عوام کے سامنے اپنی تین سالہ کار کردگی پیش کی ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا ہے کہ لوگ خوشحال ہو رہے ہیں، ان کی حکومت کے اعدادو شمار اصل ہیں۔ ہر حکمران کی طرح ہمارے وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت سنبھالی تو ملک دیوالیہ ہونے والا تھا۔ سعودی عرب، امارات اور چین مدد نہ کرتے تو ملکی معیشت مشکل میں پھنس جاتی۔ انھوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان کی ٹیم ناتجربہ کار تھی لیکن تبدیلی کا راستہ کٹھن ہے اور کامیابی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
جناب وزیر اعظم حکومت کی تین سالہ کارکردگی میں کوئی ایسا کارنامہ گنوانے سے قاصر رہے ہیں جس کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچے ہوں۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے تین سالہ دور حکومت میں اپنے منشور کے بنیادی نکات پر عمل درآمد سے پہلوتہی کرتی نظر آرہی ہے۔
ان کے منشور کے دو بنیادی نکات میں بلدیاتی حکومتوں کا قیام اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کرنا تھا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ تین سالہ کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی حکومت بلدیاتی انتخابات سے بہت دور کھڑی نظر آرہی ہے اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ایک خواب نظر آرہی ہے جب کہ نوجوان جنھوں نے اپنے سہانے مستقبل کے خواب دیکھ کر تحریک انصاف کا علم بلند کیا تھا وہ بھی خفا اور مایوس نظر آتے ہیں۔ معیشت، میرٹ، شفاف احتساب، گڈ گورنس اور کروڑوں گھروں اور نوکریوں کی فراہمی بھی خواب بن چکی ہے۔
میری ناقص عقل کے مطابق حکومت کے پاس ابھی دو سال کا وقت باقی ہے اور وہ اس عرصے میں اگر نیک نیتی سے کام کرے تو اپنے منشور کے بہت سارے نکات پر عمل کر کے عوام کے سامنے سرخرو ہو سکتی ہے لیکن حکمرانوں کو اپنے رویوں اور پالیسیوں پر فوری نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
عوام سے کھل کر بات کریں، عوام کو یہ بتایا جائے کہ ان سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔ قوم کو اپنی قومی معیشت اور حالت سے باخبر کیجیے اور اس کے ساتھ ہی دوسروں سے قربانی مانگنے کے بجائے اپنی قربانی پیش کریں۔ یہ قوم ابھی زندہ ہے اور زندہ رہنا چاہتی ہے اسے زندہ رہنے دیجیے۔