آج پاکستان امریکا کے لیے دوست نہیں، شاید ناپسندیدہ ملک ہے جہاں امریکا کی خود ساختہ اصطلاح کے مطابق دہشت گرد پلتے اور جوان ہوتے ہیں اور پھر تربیت پاکر دنیا بھر میں دہشت گردی کرتے ہیں حالانکہ بیس برس پہلے گیارہ ستمبر کو امریکا کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، اس میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔
پاکستان کے چند ایک قصورایسے ہیں جو بہت واضح ہیں ایک تو یہ کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا جانے والا واحد اسلامی ملک، دوسرا ایٹمی طاقت کا حامل ہونا اور تیسرا دنیا بھر کے ملکوں میں اسلام کی تبلیغ بھی پاکستان سے ہوتی ہے، یہی وہ قصور ہیں جو امریکا کی نظر میں ناقابل معافی ہیں اور اس کمزور معیشت والے ملک کی کمر توڑنا بہت ضروری سمجھی جاتی ہے تاکہ یہ زندگی بھر محتاج رہے اور دنیا سے بھیک مانگ مانگ کر گزرا کرے۔
سیاست مقامی ہویا عالمی اس کا مزاج ایک ہی ہوتا ہے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، آج کی اگر بات کی جائے تو سیاست کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ ہم سیاست کی اس کے نمونے اپنی سیاست میں دیکھتے رہتے ہیں۔ ہماری حد تک امریکا نے ایک بار پھر آنکھیں ماتھے پر ہی نہیں رکھیں بلکہ انھیں سرے سے ہی غائب کر دیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے صرف ایک ہدف کی کمی پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے جو اس بات کو واضح کرتا ہے امریکا کو پاکستان کی خود مختاری کے بیانات ناپسند ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کی جانب سے ڈور مور سے انکار کر کے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے پر زور دیا ہے۔ جناب وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے وہ مطالبات بھی پورے کرنے کی کوشش کی جو ممکن نہیں تھے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا ایک بار پھر ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔
امریکا کے ہاں پاکستان کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔ یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ افغانستان میں امریکا کی کامیابی کل بھی پاکستان کے مرہون منت تھی اور آج افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا بھی پاکستان کا محتاج ہے۔ امریکی پاکستان کی جانب سے کبھی انکار کے عادی نہیں رہے، جب بھی امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر دوستی کا مطالبہ کیا تو ہم ایک لمحہ کا توقف کیے بغیر ہر قسم کے تعاون پر آمادہ ہو گئے۔
خود سپردگی کے اس فوری اور والہانہ انداز میں امریکی بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور امریکا نے ہمیشہ ہماری قیمت لگائی ہے جب کہ اکثر اوقات تو ہم نے اپنی قیمت وصول کیے بغیر اپنا آپ امریکیوں کے سپرد کر دیا۔
اس وقت پھر وہی مرحلہ درپیش ہے اور امریکا افغانستان سے سے فوجیں واپس بلا رہا ہے لیکن وہ پاکستان کو ہمیشہ کی طرح زیر اثر رکھنا چاہتا ہے تا کہ اس خطے میں اس کے مفادات کا تحفظ یقینی بن سکے۔ گو بھارت اس کا اصلی دوست ہے جو اس خطے میں امریکا کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنے قدم جمائے ہوئے ہے لیکن پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے بھارت سے منفرد اورممتاز کرتی ہے، اس لیے امریکا ہر قیمت پر پاکستان کو اپنا "دوست " بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پاکستان کی حکومت کی باگ دوڑ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ انھوں نے امریکا سے جب بھی بات کی، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کی ہے، چاہے وہ امریکا میں پاکستانیوں سے خطاب کر رہے ہوں یا جنرل اسمبلی میں ان کا مخاطب دنیا بھر کے لیڈر ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات بھی آج کے پاکستانی حکمران کے حصے میں آئی ہے۔
وہ صحیح اور معروف معنوں میں پاکستانیت کو فروغ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ انگریزی بولنا اور انگریزی کپڑے پہننے کو وہ احساس کمتری گردانتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا اسی کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت کرے۔
مجھے یہ علم تو نہیں عمران خان کب تک پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے حامل رہیں گے البتہ یہ بات ان کے کریڈٹ پر جاتی ہے کہ وہ کبھی کبھار کوئی ایسی بات کر جاتے ہیں جو ان کے دل کی آواز ہوتی ہے جسے پاکستانی عوام پسند کرتے ہیں اور ان کی پاکستانیت کی یہی باتیں حکومت کی گرتی ساکھ کے سہارے کا باعث بن جاتی ہے۔ بہر حال پاکستانیت کو فروغ دینا اور پاکستانیت کی بات کرنا آج کل ایک جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔ اب یہ ہمارے لیڈروں پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان اور اس کے عوام کو کون سی زندگی بسر کرنے دینا چاہتے ہیں۔
ہمیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو خالصتا ً پاکستانی ہو جس کے دل میں پاکستان ہو، جس کے اہل و عیال اور عزیز واقارب کی زندگی صرف پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو۔ ایسا لیڈر کوئی درویش ہی ہو سکتا ہے اور ابھی تک ہمیں اپنے لیڈروں میں کوئی درویش منش اور فقیر لیڈر نظر نہیں آتا۔ درویشی اور پاکستانیت کایہ فیصلہ ہمارے لیڈروں نے خود کرنا ہے اور ہم عوام تو اپنے لیڈروں کے وعدوں پر ہمیشہ لبیک کہتے آئے اور آیندہ بھی کہتے رہیں گے۔ وماعلینا اللبلاغ۔