Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Siasat Ghalib Rahegi

Siasat Ghalib Rahegi

گزشتہ چند روز کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے دھڑا دھڑ ایسے خوش کن بیانات داغے ہیں جنھیں پڑھ کر ہر پاکستانی دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھا ہے۔

وزیر اعظم تواپنی موجودہ طرز حکمرانی کے باوجود اس قدر پر امید ہیں کہ اگلی حکومت بنا کر پاکستان کو تیزی سے اوپر لے جانے کی بات کر رہے ہیں۔ ماحولیات کے عالمی دن پر البتہ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے پانی کا بڑا مسئلہ آنے والا ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک ماحولیات کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے ان کو اس تبدیلی سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جا سکی، الٹا حکمران یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگلی جنگ اگر ہوئی تو وہ پانی پر ہو گی۔

بھارت دریاؤں پر دھڑا دھڑ ڈیم بنا کر پاکستان کو پانی کی فراہمی میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے اور ہم رسمی طور پر صرف احتجاج کرتے چلے آئے ہیں۔ پاکستان کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ برفانی گلیشئر ہیں جن سے ہم اپنی ضرورت کا 80 فیصد پانی حاصل کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں گلیشیئرز پر بھی اثر ا نداز ہو رہی ہیں، یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم اس سلسلے میں کوئی موثراور قابل عمل لائحہ عمل نہیں بنا سکے۔

موجودہ حکومت نے ایک ارب درخت لگانے کا وعدہ کیا ہے اور اس ضمن میں گزشتہ ایک برس سے ملک کے مختلف علاقوں میں شجر کاری جاری ہے اگر ان میں سے پچیس فیصد درخت بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقین جانیئے ملک میں سبز انقلاب آجائے گا لیکن اس سب کے باوجود ہم نے سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر سب سے بڑا ڈیم بنانے سے دانستہ صرف نظر کر رکھا ہے۔ گزشتہ حکومتوں میں اس اہم معاملے پر کبھی کبھار کسی محب وطن سیاستدان کا بیان ہی نظر سے گزر جاتا تھا لیکن اب کئی برس سے کالا باغ ڈیم کو سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ بھول گئی ہے، وہی کالا باغ ڈیم جس پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور اخبارات کے صفحے کالے کیے جا چکے ہیں لیکن پاکستانی کی زندگی کے ضامن اس ڈیم کو سب نے مل کر متنازعہ بنایا ہے۔

صوبہ سندھ کے جماندرو سیاستدان کم پانی کا رونا تو روتے ہیں لیکن ان صوبائی سیاستدانوں نے کبھی اس بات پر غورنہیں کیا کہ اگر کالا باغ ڈیم ہی بن جائے تو ان کی پانی کی کمی کی شکایات کا ازالہ ہو جائے گا اور کالاباغ ڈیم سے نکالی جانے والی مجوزہ پختہ نہروں سے ان کی زمینیں سیراب ہو جائیں گی لیکن اس اہم قومی معاملے پر سیاستدانوں پر ان کی سیاست غالب آجاتی ہے، یہ چاہے خیبر پختونخواہ کے سیاستدان ہوں یا سندھ کے یا پنجاب کے۔

سیاسی پارٹیاں سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر ووٹ توبٹورتی ہیں لیکن معصوم پاکستانیوں کو یہ علم ہی نہیں ہونے دیا جاتا کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کے مستقبل کی ضمانت ہے اور مستقبل میں پانی کی کمی سے نپٹنے کے لیے اس سے موثر کوئی اور آبی ذخیرہ نہیں بن سکتا۔ لیکن سیاست غالب ہے اور غالب ہی رہے گی۔

بھارت کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات پر ہمارے وزیر اعظم ڈٹے ہوئے ہیں وہ بار بار یہ کہتے ہیں کہ خطے کو جوڑنے کا انحصار بھارت پر ہے اور کشمیر پر بھارت کی جانب سے کیے گئے یکطرفہ اقدامات کی واپسی تک بھارت سے معمول کے تعلقات ناممکن ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کی کیفیت ہمیشہ رہتی ہے لیکن جب سے بھارت نے کشمیریوں کو اپنے جابرانہ اقدامات سے عملاً قید کیا ہے اس کے بعد سے عمران خان نے بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اصولی موقف اختیار کر رکھا ہے جس کی پہلی شرط یہی ہے کہ کشمیریوں کے خلاف اقدامات کو ختم کیا جائے۔

تازہ ترین بیان میں وزیر اعظم جو بطور اپوزیشن لیڈر تقریر کیا کرتے تھے اس کو دہرایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمران کرپٹ ہوں تو ملک دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ سربراہان ریاست اور ان کے وزراء بدعنوان ہوتے ہیں تو ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں، جب نچلی سطح کے حکام رشوت لیتے ہیں تو اس سے عام شہریوں کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے امریکی صدر کے ایک اقتباس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلوب حکمرانی میں اور کرپشن کے تدارک کے لیے بد عنوان عناصر کو کٹہرے میں لانا پڑتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے انھی خیالات کے اظہار کے باعث ان کی اپوزیشن ان کو تختہ مشق بنائے رکھتی ہے، اپوزیشن ملکی معیشت کی بدحالی کو ان کے بیانات سے جوڑتے ہوئے انھیں اس کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔

اب ایک بار پھر عمران خان نے حکمرانوں کی کرپشن کو ملک معیشت کی بدحالی سے جوڑا ہے، کیا وہ اس بات اظہار کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت میں بھی سب اچھا نہیں ہے اور انھوں نے عوام سے کرپشن کے خاتمے کے جووعدے کیے تھے وہ ابھی تک ان پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان کے لاشعور میں یہ بات چپک گئی ہے کہ حکمرانوں کی کرپشن ملک کی بدحالی کا اصل سبب بنتی ہے، اسی لیے وہ اپنے وزیروں مشیروں کو معاف کرنے پر بھی تیار نظر نہیں آتے۔

بلاتفریق احتساب کے اقدامات ان کے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں، وہ اس بات کی تکرار کرتے ہیں کہ حکومت بچانے کے لیے کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گے اوروہ کرپشن پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، شایدیہی وجہ ہے کہ ابھی تک اپوزیشن کی دال گلتی نظر نہیں آرہی ہے اور اپوزیشن نے احتجاجی تحریک کے ذریعے حکومت پر جو دباؤ بڑھایا تھا، وہ اب اخباری بیان بازیوں سے تک محدود ہو گیا ہے اور اندرونی اختلافات کے باعث اپوزیشن اتحاد بے جان ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن عوام یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ حکمران چاہے جتنا بھی نیک نیت کیوں نہ ہو سیاست غالب ہے اور غالب ہی رہے گی۔