Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shuttlecock Se Tik Tok Tak

Shuttlecock Se Tik Tok Tak

افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد جس برق رفتاری سے تحریک طالبان نے افغانستان پر دوبارہ تسلط قائم کر لیا ہے اوروہ ایک نوتعمیر شدہ ملک کے مالک بن چکے ہیں، طالبان کی موجودہ حکومت ان کی گزشتہ حکومت سے کتنی مختلف ہوگی، اس کی ترجیحات کیا ہوں گی، ان کا طرز حکمرانی کیا ہو گا، فی الحال ان سوالات کے جواب دستیاب نہیں ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ میں ہم پاکستانی موجود ہیں۔

امریکا ماضی میں جب افغانوں کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے خلاف جنگ کر رہا تھا تو اس وقت اس نے دیکھ لیا تھا کہ پاکستان کے مسلمان کس قدر مضبوط نظریاتی طاقت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ شروع دن سے وابستہ اور بہتر تعلقات ہونے کی وجہ سے امریکی پاکستانی قوم سے خوب واقف ہیں اور ہماری مضبوط نظریاتی سرحدوں میں دراڑیں ڈالنے کے لیے وہ پاکستان کا نظریاتی تشخص ختم یا کمزور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

آج کل موبائل فون ہر خاص و عام کے ہاتھوں میں موجود ہے جس میں دنیا جہان کی اچھی معلومات کے ساتھ خرافات بھی موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم نے اس کی اچھائیوں کو اپنانے کے بجائے اس کی خرابیوں سے زیادہ دل لگا لیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل میں یہ خرابیاں اس قدر سرائیت کرچکی ہیں کہ ان کے مظاہر آئے روز میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔

سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں میں عورت کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ مغرب کے مختلف پروگرام موبائل ٹیلی فون کے ذریعے ہمیں روشن خیال اور دلکش دنیا تک پہنچا دیتے ہیں اور یہ روشن خیال دنیا غیر محسوس طور پرہمیں اس طر ح اپنے اندر سمو لیتی ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے عادی بن جاتے ہیں اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو گزشتہ دونوں مینار پاکستان پر ایک خاتون کے ساتھ ہوا۔ عقل مند لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ ایسی بے ہنگم اور بے ہودہ تبدیلیاں بتدریج آتی ہیں اور پھر بے پاؤں معاشرہ ایک نئی راہ میں داخل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ہماری مائیں بہنیں ٹوپی والا سفیدبرقعہ پہنتی تھیں۔ میری والدہ زندگی بھر خود یہی برقعہ استعمال کرتی رہی ہیں جسے شٹل کاک برقع کہا جاتا تھا۔ پھر وقت نے انگڑائی لی اور یہ برقع سیاہ رنگ کے برقعے میں تبدیل ہو گیا جو ٹوپی والا نہیں تھا، اس برقع کے سامنے چہرہ دو نقابوں میں چھپا ہوتا تھا۔

ایک گہرے اور ایک ہلکے رنگ کا نقاب، پھر یہ گہرے موٹے رنگ کا نقاب غائب ہو گیا اور باریک ہلکا نقاب باقی رہ گیا۔ اس نقاب کو بھی ہم سب نے الٹا ہوا دیکھا اور پھر رفتہ رفتہ برقع سرے سے ہی غائب ہو گیا۔ اس کے بعد ایک بڑی چادر نے اس کی جگہ لے لی لیکن یہ چادر بھی چار دیواری کے اندر ہی کہیں رہ گئی اور سروں پر عام دوپٹہ آگیا اور پھر یہی دوپٹہ ہم نے گلے سے غائب ہوتے بھی دیکھا۔ آج کل اس کی جگہ عبایا نے لے لی ہے جس سے چہرہ تو بے نقاب ہی رہتا ہے۔

اگرچہ کسی حد تک مغربی یلغار کے ردعمل میں چہرے پھر سے حجاب میں لپٹنے لگے ہیں اور اب پاکستانی خواتین اپنے لباس کو بدل رہی ہیں۔ یہ ساری تبدیلی نہ کسی کی تبلیغ سے آئی ہے نہ کسی پروپیگنڈے کی وجہ سے بلکہ غیر محسوس طریقے سے حالات اور زمانہ یہ تبدیلی خود بخود لے آیاہے۔ آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں اور عورت کی آزادی کے دعویدار تو ا س سے کچھ اور بھی آگے نکل جاتے ہیں۔

مرد اور عورت دونوں کی جسمانی ساخت، جبلت اور مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ قدرت نے ہی دونوں کو الگ الگ کاموں کے لیے تخلیق کیا ہے اور مردو عورت کا ایک ایسا امتزاج اور جوڑ بنایا ہے جو قدرت کا حسین ترین کرشمہ ہے۔ اصل اور سچ بات یہ ہے کہ مرد اپنی عیاشانہ مزاج اور طبیعت کی وجہ سے عورتوں کو بے باکانہ باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ حسن کے بازار بھی مرد آباد کرتے ہیں، عورت کاا ستحصال کرتے ہیں اور عورت کو مساوات اور شانہ بشانہ زندگی گزارنے کا جھانسہ بھی دیتے ہیں۔

ان مردوں نے مغرب کی دنیامیں عورتوں کی جو درگت بنائی ہے اور بنائے چلے جارہے ہیں وہ اسے ہمارے معاشرے میں بھی رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا اسلامی معاشرہ فطرت اور قدرت کے قریب ترین اور پر سکون عائلی زندگی کا آئینہ دار ہے۔

اس معاشرے میں عورت کا رتبہ اور احترام دین میں واضح کر دیا گیا ہے مگر مغربی تہذیب کے دلدادہ ہمارے معاشرے کو اس طرح بدل دینا چاہتے ہیں کہ اس کے اندر سے غیرت و حمیت کا ڈنگ نکال دیا جائے اور اسے آسانی کے ساتھ ایک ایسے معاشرے میں ڈھال دیا جائے جس میں جرات انکار باقی نہ رہے۔ یہ سب کچھ ہم اپنے ہاتھوں راضی خوشی کر رہے ہیں اور شٹل کاک برقعے سے چھٹکارا پا کر ٹک ٹاک تک پہنچ چکے ہیں۔