حکمرانی کے لیے تین برس ایک طویل مدت ہوتی ہے اوراس مدت میں ایک اچھی حکومت اپنے اہداف کی جانب پیشرفت کرتی ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ تین برس کے دوران حکومت اپنے اہداف سے ادھر اُدھر ہو گئی ہے۔ عوام کے لیے شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کے جو وعدے کیے گئے تھے وہ خواب ہی نظر آرہے ہیں۔
موجودہ حکومت تین سال سے جو معاشی پالیسیاں چلا رہی ہے، ان میں عوام کے لیے مشکلات کے سوا کچھ نہیں ہے اور وہ شدید بلکہ ناقابل برداشت مشکلات سے دوچار ہیں۔ حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں میں تسلسل کا جو انوکھا فلسفہ ہمیں نظر آرہا ہے، اس پر بڑی بے حسی اور بے رحمی سے عمل ہو رہا ہے۔ ہمیں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ ذرا صبر کریں، اس صبر کا پھل بہت میٹھا ہو گا لیکن ہم عوام کو اب بہت ڈر لگ رہا ہے۔ وزیر اعظم ہوں یا وزیر خزانہ دونوں کی یہ خواہش ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے لیکن ان کی یہ خواہش سردست پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔
بلاشبہ ملک کی معاشی حالت بہت خراب ہے لیکن عوام کی شکایات بھی بجا ہیں مثلاً جب بھی ضرورت پڑتی ہے عوام کی روزمرہ ضرورت کی کسی چیز پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، حکومت کے پا س اپنی آمدن بڑھانے کا سب سے آسان ذریعہ یہی ہے کہ عوام کی جیب سے براہ راست پیسے نکلوا لیے جائیں۔ کوئی بل اچانک بڑھ جاتا ہے، پٹرول کی قیمت میں حسب منشا اضافہ کر لیا جاتا ہے۔
کل کی بات ہے بجلی کے بلوں پر ایک نیا ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے جب کہ بجلی کے بلوں پر پہلے ہی ٹیکسوں میں کوئی کمی نہیں تھی لیکن حکومت کو آمدن بھی بڑھانی ہے اور قرضے بھی ادا کرنے ہیں، یہی ایک آسان ترین حربہ ہے جو حکومت جب چاہے عوام پر استعمال کر لیتی ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے عوام کو کوئی ایسی خوشخبری سنائی نہیں دیتی کہ حکومت اخراجات میں کمی ہو گئی ہے یا ان میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ چند روز قبل اسمبلیوں میں موجودہمارے منتخب نمایندوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ ان کی تنخواہیں بہت کم ہیں۔
ان میں اضافہ ہونا چاہیے، وہ تو بھلا ہو وزیر اعظم کا جنھوں نے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی سمری مسترد کر دی۔ وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ وہ ان منتخب نمایندوں کی تنخواہوں کو اگر ختم نہیں کر سکتے تھے تو ان میں کمی ضرور کر دیتے تا کہ عوام کو بھی صبر آجاتا کہ ان کے منتخب کردہ نمایندے ان سے وصول شدہ ٹیکسوں سے اپنی جیبوں کو ذرا ڈھیلا کر رہے ہیں۔ جس سج دھج اور شان و شوکت سے ہمارے معزز اراکین اسمبلی زندگی گزارتے ہیں۔
ان کو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں وصول کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ لیکن سرکار دربار کے وہی سج دھج ہیں جو اس ملک کی توفیق اور استطاعت سے باہر ہیں۔ نئی گاڑیاں بھی خریدی جاتی ہیں اور سرکاری گھروں کی تزئین وآرائش بھی اسی طرح جاری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک صوبائی وزیر کو اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخلے کے لیے مثال بننے کے لیے سوال کیا گیا تو وہ جواب دینے کے بجائے الٹا ناراض ہو گئے۔ یہی وہ رویہ ہے جس کو دیکھ کر عوام دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں اور حکمرانوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور اپنا غصہ الیکشن کے موقع پر ووٹ کے ذریعے نکالتے ہیں۔
ہر حکمران کے پاس عوام کو صبر اور قربانی دینے کا فارمولا موجود ہوتا ہے لیکن ان کے پاس عوام کے مسائل کے حل کا کوئی فارمولا موجود نہیں ہے۔ عوام تو حکومت کی نصیحتوں پر قربانی دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حکمران طبقہ ہاتھوں میں چھریاں لے کر عوام کی قربانی تو کردیتا ہے لیکن خود معمول کی آسودہ زندگی بسر کرتا ہے۔
ہمارے ملک کے جتنے بھی مسئلے ہیں وہ سب ہم نے خود پیدا کیے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بیرونی قرضے ہیں جو ہم نے برضا و برغبت حاصل کیے ہیں اور یہ قرض ہم نے ملکی ترقی کے لیے نہیں بلکہ ہمارا حکمران طبقہ جس میں بیورکریسی سر فہرست ہے، ان سب نے اپنی عیاشیوں کے لیے حاصل کیے ہیں جس کو ادا ہم پاکستانی عوام نے کرنا ہے۔ ہر روز عوام پرنئے ٹیکسوں کا نفاذ عیاشی کے لیے حاصل کردہ انھی قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے، یہ سلسلے ایک مدت سے جاری ہیں اور جاری رہیں گے اور قرض خواہ اپنے قرضوں کی وصولی کے لیے ہمارا خون یونہی نچوڑتے رہیں گے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو اپنی ضروریات میں خود کفیل ہو سکتا ہے لیکن عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ ضروریات کو چھوڑ کر ہم نے عیاشیوں کو ترجیح دی ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
ہم باوجود کو ششوں کے عالمی ساہوکاروں سے جان چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ہماری کوششیں صرف انتخابی نعروں تک ہی محدود ہو کر رہ گئیں اور حکومت کا کاروبار چلانے کے لیے ہم پھر قرض کی مئے پینے پر مجبور کر دیے گئے۔ عوام تو ہر حکمران کا پرجوش خیر مقدم کرتے ہیں اور وہ اس گرمجوشی کو جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی پالیسیاں ان کی گرمجوشی پر پانی ڈال دیتی ہیں اور ان کے پاس سوائے صبر کرنے کے اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا اور عوام کا صبر آیندہ الیکشن میں حکمرانوں پر بھاری پڑتا ہے۔ کوئی جائے تو جائے کہاں اور کس پر اعتبار کرے۔