ملک میں سیاسی دھماچوکڑی جاری ہے۔ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ جام کمال استعفیٰ دے چکے ہیں۔ پنجاب میں اپوزیشن مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے۔ کچھ دوسرے عناصر بھی حکومت کی پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے بھارت سے کرکٹ میچ جیت لیا ہے جس سے وزیراعظم سمیت کرکٹ لورز کے چہروں پر کچھ رونق آئی ہے جب کہ تازہ خبر یہ ہے کہ یکم نومبر سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ حکومتی ادارہ شماریات کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ تین برس میں مہنگائی کے ستر سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔
کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں بھی ہوشرباء اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس سب کے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کی حکومت سے ناراض ہے اور سبسڈیز کم کرنے اور ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ایک تشویشناک خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے جس پر حکومت نے کسانوں پر زرعی ٹیکس لگانے کے لیے قانونی مسودہ تیار کر لیا ہے۔ بتایا یہ جارہا ہے کہ اس نئے ٹیکس سے سالانہ ایک سو بیس ارب روپے کے محصولات حاصل ہوں گے۔
خبر کے مطابق پاکستان کی معیشت میں زرعی آمدن کا حصہ انیس فیصد ہے، اس لیے اسلام آباد کے اعلیٰ طرز تعمیر والے دفاتر کی دبیز اور آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے "بابو" بغیر سوچے سمجھے حکومت کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ ایک مقروض ملک کی جو حیثیت قرض خواہوں کی نظر میں ہوتی ہے اس کا مشاہدہ ہم آئے روز کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکمرانوں کو ان کی اوقات میں رکھا ہواہے لیکن وزیر اعظم کویہ دیکھنا چاہیے کہ کیا پاکستان اس زرعی ٹیکس کا متحمل ہو سکتا ہے جو پہلے سے کسانوں پر کسی نہ کسی صورت میں نافذ ہے۔
پاکستان میں زرعی آلات کی ہوشرباء قیمتیں، مہنگی بجلی اور ڈیزل جس سے ٹیوب ویلز، ٹریکٹر، تھریشر چلتا ہے، پاکستان میں فروخت ہونے والی کیمیائی کھاد کی قیمت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ بیج پر ٹیکس ہے، حیرت انگیز حد تک مہنگی زرعی ادویات ہیں، کھیت سے منڈی تک اجناس پہنچانے کے لیے راہداری ٹیکس اور سب سے ظالم ٹیکس آڑھتی کا ہے جو کسان کا خون چوس لیتا ہے اور اس کی جنس کی اپنی مرضی کی قیمت لگا کر فروخت کرتا ہے۔
نہری پانی ضرورت سے کم ہے، یہ سب حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے ہے اور اس کے بعد اگر کسان کے پاس کچھ بچ جاتا ہے تو وہ بمشکل دو وقت کی روٹی ہوتی ہے جس پر بھی حکومت ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اسلام آبادی بابوؤں اورنااہل عوامی نمایندوں کو کوئی یہ بھی بتائے کہ جب قدرتی آفات کی وجہ سے فصل خراب ہو جاتی ہے یا منڈی میں اس کے صحیح دام نہیں ملتے تو اس صورت میں غریب کسان کی داد رسی کون کرتا ہے یا کرے گا اور اگر داد رسی کرنی ہے تو اس کا میکنزم کیا ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے خود انحصاری کے دعوؤں کے برعکس ملک کی آمدن میں اضافے کے لیے جن شعبوں کا انتخاب کررکھاہے، انھیں دیکھ کر معلوم یوں ہوتا ہے بیوروکریسی اور معاشی ماہرین حکومت کے اصل دشمن ہیں جو حکومت کو شہروں میں غیر مقبول کرنے کے بعد اب دیہات میں بھی زراعت دشمن حکومت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو زراعت پاکستان کا ایسا شعبہ ہے جس کی ترقی آسان ترین ہے کیونکہ کھیت میں کام کرنے والے کام چور نہیں ہوتے۔
زراعت کے شعبے میں چونکہ مالک اور مزارع کے مفادات یکساں ہوتے ہیں اس لیے زرعی شعبے میں ترقی آسان ترین ہے لیکن حکومت اور بابوؤں کا گٹھ جوڑ زراعت کو ترقی نہیں کرنے دیتا۔ سنتے ہیں کہ ایوب خان اور نواب کالا باغ کے دور میں زراعت کو ترقی دی گئی۔
ایسا تھا بھی یا نہیں، اس کے بارے میں مجھے نہیں پتہ البتہ میں نے اپنی زندگی میں جو حکومتیں دیکھیں ہیں، چاہے وہ صنعتکاروں کی ہوں، جاگیرداروں یا قبائلی وڈیروں کی ہوں یا پھر فوجی جرنیلوں کی، انھوں نے زرعی شعبے کو نہ سمجھا اور نہ جدید تقاضوں کے مطابق زراعت کی ترقی کے لیے کام کیا۔ صنعتکار نواز شریف نے سندھ میں ہاریوں کو زمینوں کو مالک بنایا لیکن یہ بھی ایک سیاسی حربہ ہی ثابت ہوا۔
عمران خان کا تعلق بھی شاید زراعت سے ہے لیکن انھوں نے بچپن ایلیٹ کلاس میں گزارا اور جوانی برطانیہ میں وہاں کی ایلیٹ کلاس میں گزارا، موصوف نے میانوالی سے بھی صر ف الیکشن ہی لڑے ہیں عملی طور پرزمینداری نہیں کی، اس لیے وہ زرعی شعبے اور کاشتکاروں کے مسائل سے بے خبر ہیں۔ البتہ پنجاب میں ایک زمیندار وزیر اعلیٰ موجود ہیں۔
جن سے اس ٹیکس کے سلسلے میں مشاورت کی جا سکتی ہے۔ عمران خان نے عوام کی بھلائی کے ایجنڈے پر ووٹ حاصل کیے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر گزشتہ تین برس سے وہ غیر عوامی سیاستدان بنے رہے ہیں، انھیں جلد از جلد عوام کی جانب لوٹ جانا چاہیے کیونکہ جو سیاستدان عوام سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ کوئی بھی بڑا کام کر سکتا ہے۔ کسانوں کے راستے میں مزید کانٹے نہ بچھائیں۔ زرعی ٹیکس کو مسترد کر دیں۔
آئین پاکستان میں بھی وفاق کی جانب سے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ صوبائی معاملہ ہے۔ اپنے نادان مشیروں اور وزیروں سے بچیں۔ کالم لکھ رہا تھا کہ ایک کسان کافون آگیا س نے امام دین گجراتی کا یہ شعر سنایا۔
دو ہی گھڑیاں عمر بھر میں مجھ پر گزری ہیں کٹھن
اک ترے آنے سے پہلے ا ک ترے جانے کے بعد
ہمارے حالات اورپریشانیاں وہی ہیں جو اس حکومت کے آنے سے پہلے تھیں اور ان کے جانے کے بعد بھی یہی رہیں گی۔