کسی نے درست کہا ہے کہ بچوں سے معاشرے کا بر تاؤ ان کے کردار کی تشریح ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے بچوں سے مطلق کنونشن نے بچوں کے حقوق تقریباً 30 سال قبل ہی طے کر لیے تھے جس کے تحت ہرریاست اپنے بچوں کو جسمانی اور زہنی تشدد سے محفوظ رکھنے کی پابند ہے پھر بھی بچوں پر تشدد اور انکے ساتھ بے رخی کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ ماہ قبل لاہور میں بچیوں کو سکول میں جنسی طور پرہرا ساں کرنے کی خبریں سامنے آئیں۔ یہ خبر ہمیں سوشل میڈیا کے ذ ریعے موصول ہوئی۔ بچیوں کی سکول میں ہر اسگی کی خبر تو تکلیف دے تھی ہی، لیکن یہ کہ ان بچیوں کو اپنی مجبوری بتانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لینا پڑا، میرے لیے زیادہ تشویش کا باعث بنا۔ جس سکول میں یہ واقعہ پیش آیا اسکی کافی شہرت ہے۔ حالانکہ بچوں کو مدرسوں میں بھی ہر اسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہاں اسکی شرح عام تعلیمی اداروں سے زیادہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی این جی او ساحل کے مطابق ایک سال میں مجموعی طور پر بچوں کو ہراساں کیے جانے کے 2، 846 واقعات درج ہوتے ہیں۔ اس اعداد شمار کے مطابق ہر روز تقریباً 8 بچوں کا جنسی طور پر استحصال ہوتا ہے۔ اسی طرح 6 سے15 سال کی عمر کے بچوں کا جنسی طور پر ہراساں ہونے کا خطرہ زیادہ رہتاہے جن میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے اس جرم کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ان تمام واقعات میں مجرم عموماًً اساتذہ پائے جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے بچے اسکول میں بھی محفوظ نہیں۔
اس کے مطلق ہمیں کیا کرنا ہو گا میں نے اپنے طور پرمعلوم کرنے کی کوشش کی کہ کتنے اسکولوں نے بچوں کی نگہداشت کی پالیسی بنا رکھی ہے۔ چند کو چھوڑ کر کسی بھی سکول میں بچوں کو ہراسگی یا تشدد سے بچانے سے مطلق نہ تو پالیسی ہے اور نہ ہی سکول کے ملازمین کواس سلسلے میں کوئی تربیت دی جاتی ہے۔ کئی سکول تو ایسے بھی ہیں جہاں اس پالیسی کے ہونے کی ضرورت کا بھی احساس نہیں ہے۔ اس معمے کا ایک حل تو یہ ہے کہ ہر سکول میں بچوں کے ماہر نفسیات ہوں اور وہ اپنے طور پر بچوں کی نگہداشت کے حوالے سے پالیسی پر عملدرآمد کریں۔ پاکستان میں چونکہ زیادہ تعداد ایسے سکولوں کی ہیں جہاں متوسط طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے لیے حکومتی امداد کے بغیر ایسی کسی بھی تجویز پر عمل کرنا مشکل ہے۔
آئینی لحاظ سے حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کرے۔ چاہے گھر ہو یا سکول۔ اب تک اس معاملے میں ہم ردعمل کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ میڈیاجس واقع کو اٹھاتا ہے اس کے لیے ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ہم سب مجرم کو سزا دلوانے پر زور دینے لگتے ہیں۔ میرے نزدیک سزا دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ مجرم کو ضرور حراست میں لینا چاہیے، لیکن ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ بجائے ردعمل کے ہمیں ان عوامل کاسد باب کرنا ہوگا جو ان واقعات کو جنم دینے کا سبب بنتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں دیر پا احتیاتی تدابیربنا کر ان پر عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ اس آگاہی کی بھی ضرورت ہے کہ بچوں کی نگہداشت اور تربیت پرخر چ کرنا مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کے مترادف ہے، نہ کہ پیسے کا ضیاع۔
اس حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کی پالیسی بنائے اور اس کے عمل درآمد پر جتنے بھی اخراجات اور وسائل درکار ہوں ان کا سردست بندوبست کرے۔ یہ پالیسی ایک سکیم وضع کرے جس کے تحت جتنے بھی ادارے بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کام کر رہے ہیں ان کے درمیان روابط اور ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ اسی طرح صوبائی اور ضلعی سطح پر بھی اس پالیسی کے نفاظ کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ان اقدا مات کے ذریعے ہی دیر پا تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ یہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کے اٹھارویں ترمیم میں ایسی کوئی شق نہیں جو وفاقی حکومت کو صوبوں سے تعمیلی عمل کے مطابلے سے روکتی ہو۔ آئین کا آرٹیکل 25 وفاق کو بچو ں کی خاص نگہداشت کا مینڈیٹ فراہم کرتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں جن کے تحت تعلیم گاہوں کو خاص قواعد و ضوابط میں لایا جاسکے۔ صوبائی سطح پر ایسے قوانین بنانے ہونگے جس سے بچوں پر ہونے والے تشدد کی فوری اطلاع دی جاسکے اور ر یہ کہ اگر سکول اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کرے تو اسے سزا دی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نگرانی اور معائنے کا بہترین نظام وضع کیا جائے۔ لیکن کسی بھی پالیسی یا قانون کی کامیابی کے لیے عوام کی شمولیت اور سنجیدگی انتہائی ضروری ہے۔ بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کی پالیسی کے بارے میں معلومات کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔ ہمیں جنسی معاملات پر بات نہ کرنے کی بند گلی سے نکلنے کی کوئی تدبیر کرنا ہوگی۔ آگاہی کے بغیر حکومتی پالیسی کو کامیاب بنانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے روز بچوں کا استحصال ہوتا ہے جب سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لیے انہیں چھوڑ ا جاتا ہے۔ ہم ان کی تکلیف اور درد کے سامنے آپنے آپ کو بے بسی پاتے ہیں۔ پھر ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے چند روپے دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن یہ معاملے کا حل نہیں۔
میں اپنی بات نیلسن منڈیلا کہ اس قول پر ختم کروں گا جس میں وہ کہتا ہے:" ہمارے بچے وہ چٹان ہیں جن پر ہم اپنا مسقبل تعمیر کرتے ہیں۔ یہ ہماراسب سے بڑا سرمایہ ہے۔ یہ بچے ہمارے ملک کے رہنما بنیں گے، یہ قومی دولت کو پیدا کرنے کا موجب بنیں گے تاکہ یہاں کے رہنے والوں کا خیال رکھا جاسکے۔ اس لیے جو لوگ ان بچوں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتے ہیں وہ معاشرے کو تتر بتر اور اس کی ساکھ کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔" اس سے بڑی شرمندگی اور کیا ہوگی کہ ہمارے بچے تکلیف میں ہوں اور ہم خاموش تما شائی بنے کھڑے رہیں۔