Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Asal Bohran

Asal Bohran

ملک میں اس وقت آٹے کا شدید بحران ہے، حسن انتظام کا بحران ہے اور نہ جانے کیا کیا بحران ہیں۔ مگر اصل بحران کیا ہے۔ آج کے کالم میں اسے ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

خود اعتمادی جب حد سے بڑھتی ہے تو خود پسندی میں بدل جاتی ہے۔ خود پسندی ایک ایسی عینک ہے جسے لگا کر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی بلندی پر متمکن ہے اور اس کے سامنے بونوں کی فوج ظفر موج ہے۔ وہ اپنے آپ کو عقل کل اور حرف آخر سمجھنے لگتا ہے۔

تب اس شخص کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مختار کل ہو کر زندگی کے ہر شعبے کو درست کر سکتا ہے۔ جناب عمران خان کی یہ خواہش بھی پوری ہو گئی مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ اختیار کلی استعمال کیسے کرنا ہے۔

اچھی حکمرانی کا بنیادی نکتہ اپنے نائبین کا حسن انتخاب اور پھر ان پر مکمل اعتماد ہے۔ ادھورا اعتماد بے اعتمادی کے مترادف ہے۔ اپنے نائبین پر خان صاحب کی بے اعتمادی ہی ہمارا اصل بحران ہے۔

اس وقت وزیر اعلیٰ جناب بزدار اپنوں اور غیروں کی تیر اندازی کی زد میں ہیں۔ وہ تیر کھا کے دیکھتے ہیں تو ان کی ملاقات فواد چودھری جیسے اپنوں سے ہی ہو جاتی ہے۔ حکومت کا ہر اتحادی ان سے بدظن ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ان کے پاس وزارتیں ہیں مگر اختیار کوئی نہیں۔ تاہم دلچسپ یہ ہے کہ جناب عثمان بزدار جنہیں آج بھی وزیر اعظم وسیم اکرم پلس قرار دیتے ہیں مکمل طور پر بے اختیار ہیں بقول شاعر :

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

باخبر حلقوں کی اطلاع کے مطابق پنجاب کی ٹاپ بیورو کریسی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے کنٹرول میں نہیں۔ پنجاب میں ماہ نومبر کے دوران جو بڑی تبدیلیاں آئی تھیں ان کے مطابق صوبے کے انتظامات کے وسیع تر اختیارات چیف سیکرٹری اور پولیس چیف کو سونپ دیے گئے تھے۔ جو براہ راست وزیر اعظم سیکرٹری سے احکامات لیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کبھی کبھی پبلک مقامات پر کوئی افتتاح کرتے یا کسی غریب بچی کو آٹے کا تھیلا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لئے تو مسلم لیگ(ق) کے کئی رہنمائوں نے برملا کہا ہے کہ انہیں بزدار صاحب سے کوئی مسئلہ نہیں مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اگرچہ صوبہ سندھ میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں مگر وہاں بھی وفاقی حکمران اپنی پارٹی کے گورنر کے ذریعے مداخلت کرتے نظر آتے ہیں اور وفاق اور صوبے میں باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔

پی ٹی آئی آٹا 35 روپے فی کلو کرنے، مہنگائی کم کرنے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور غریبوں کے لئے پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا نعرہ لگا کر 2018ء کے انتخابی اکھاڑے میں اتری تھی۔ آج پی ٹی آئی کے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار کے بعد معیشت کی جو حالت زار ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایوب خان کے زمانہ صدارت میں جب مہنگائی بڑھی تو اس دور کے ممتاز اور مقبول عوامی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی تھی۔ جس کا یہ شعر زبان زد خاص و عام تھا:

بیس روپے من آٹا اس پر بھی ہے سناٹا

گوہر، سہگل، آدم جی بنے ہیں برلا اور ٹاٹا

آج آٹا بیس روپے من نہیں ستر روپے کلو ہو گیا ہے لوگ دس یا بیس کلو خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ وہ پانچ پانچ کلو کے تھیلے یا ساشے خریدنے پر مجبور ہیں۔ اب حکومتی ہرکارے دوڑے پھرتے ہیں۔

کہیں نانبائیوں کو دھمکی دیتے ہیں، کہیں قیمت وہی رکھنے اور وزن کم کرنے کی بقراطی تجویز دیتے ہیں۔ کہیں لال حویلی کے دانشور یہ فرما کر کہ نومبر دسمبر میں لوگ زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں، غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔ پھر وہی بات کہ اصل بحران وژن اور اعتماد کا ہے۔ نانبائیوں یا فوڈ کنٹرولروں کی گرفتاریوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا اور بگڑے گا۔ بڑا مسئلہ معیشت کی بحالی ہے۔ جو حکومتی جکڑ بندیوں، دھمکیوں اور ٹیکسوں سے مفلوج ہو چکی ہے۔

گزشتہ دنوں شادی کی ایک تقریب میں سرگودھا کی زرخیز تحصیل بھلوال کے ایک متوسط درجے کے زمیندار سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ دو مربع والا زمیندار تو مارا گیا فصلوں کی پیداواری لاگت، کھاد کیڑے مار ادویات اور ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں کے بڑھنے سے پیداواری لاگت ڈیڑھ دو گنا ہو گئی ہے۔

جبکہ فصلوں کی قیمت فروخت تقریباً وہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب زمیندار کو کوئی بچت نہیں ہو گی تو بیچارے مزارعین کے حصے میں کیا آئے گا۔ جونہی پی ٹی آئی نے زمام کار سنبھالی تھی تو ہم نے عرض کیا تھا کہ جناب جہانگیر ترین کو زراعت کی بہتری کا ٹاسک سونپ دیا جائے۔ اگر وہ اپنی زمینوں سے عام کسان کے مقابلے میں تین تین گنا فی ایکڑ پیداوار حاصل کر رہے ہیں تو وہ ملکی زراعت میں بھی یہ انقلاب لا سکتے ہیں۔

ایک بہت بڑے بزنس مین دوست سے فون پر بات ہوئی انہوں نے تو یہ کہہ کر چونکا دیا کہ ان کا کاروبار ایک چوتھائی رہ گیا ہے اور وہ ملک سے باہر اپنا کاروبار لے جانے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ جناب عمران خان اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچانے اور اپنے چاہنے والوں کی دل جوئی کے لئے ایک اور یوٹرن لیں اور وہ ہے اپنے نائبین اور اپنے مخالفین کے ساتھ اعتماد سازی کا یوٹرن۔ جناب وزیر اعظم سارا بوجھ خود نہ اٹھائیں دوسروں پر مکمل اعتماد کریں۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی ہی آج کے پاکستان کا اصل بحران ہے۔