انسان جب شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے ماحول سے اثرات قبول کرنا شروع کر دیتاہے۔ ماحول اور ماضی (ماحول بھی ماضی کا ایک اینٹی تھیسس ہی ہوتا ہے) سے اثرپذیری آگے چل کر انسانی شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ بعض مفکرین کا خیال ہے کہ انسان اگر اوائل ِعمر میں اپنے لیے، ماحول میں موجود کسی شخصیت کا بطور راہ نما انتخاب کر لے تو شخصیت کے تشکیلی مرحلوں کی بہت سی دشواریاں نفسی پیچیدگیاں بن جانے کی بجائے خوبصورت موڑبن جاتی ہیں۔
ہمارے موجودہ معاشرے میں نسل ِنو کے بارے میں یہ خیال بہت عام اور پختہ ہے کہ اس میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے، ?لیکن ان صلاحیتوں کی تہذیب کے لیے جس کار گاہِ فکر کی ضرورت ہے ?؟ اس کی جانب توجہ کرنے کا رواج ہمارے ماحول میں نہیں پایا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ وہ نوجوان جو بہت سی صلاحیتیں لے کر دنیا میں آتے ہیں اول تو ان صلاحیتوں کا عرفان ہی نہیں کر پاتے دوسرے یہ کہ انھیں ان صلاحیتوں کی تہذیب وتزئین اور صورت گری کے لیے کسی راہ نما کا سراغ نہیں ملتا۔
ہم آج کی صحبت میں اپنے ان نوجوان دوستوں کی خدمت میں چند گزارشات پیش کررہے ہیں جو کسی فن کی صلاحیت سے متصف ہیں۔ فن سے مراد فکر وخیال اور قوت وعمل سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی رجحان ہے جس کی تہذیب اسے فن یا آرٹ بناتی ہے۔
یوں تو مسلم تاریخ میں متعدد شخصیات موجود ہیں، جن کے تصوراتِ فن، تعلیمات اور افکار کی طرف توجہ زندگی کے تشکیلی مرحلوں میں راہ نمائی فراہم کرسکتی ہے لیکن انسانی طبیعت بالعموم زمانی اعتبار سے قریب تر مثال سے زیادہ مانوس ہواکرتی ہے، اس لیے ہم اس بات کو اپنی ایک قومی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ماحول میں ایک ایسا نام زندہ ہے جو مختلف علوم وفنون کاجامع ہے اور جس کے افکارونظریات نہ صرف نوجوانوں کے لیے بلکہ من حیث القوم بھی ہم سب کے لیے ایک عمدہ راہِ عمل مہیّاکرتے ہیں۔
اقبالؒ?یوں تو ایک شخصیت تھے لیکن ایک ایسی ہمہ گیر شخصت جس کے سلسلہ ہائے فکر، شعرو خیال کے دائروں سے نکل کر ایک طرف تو فلسفہ و تفکر کا نظام قائم کرتے ہیں تو دوسری طرف مختلف علوم و فنون کی حدبندیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اقبال ایک "کہکشاں " (Galaxy)ہیں جس سے شعرو ادب تفلسف و مذہب اور فن و فکر کی کئی شعاعیں منزلوں کو منور کرتی ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج کا نوجوان اپنے ماحول سے اقبال کا انتخاب کر لے تو اسے منزلوں کا سراغ پانے میں آسانی ہو سکتی ہے۔
فن کے حامل اصحاب کو اقبال کے تصورِ فن سے اکتساب ِفیض اپنی اپنی راہوں پہ منزلوں آگے بڑھا سکتا ہے آئیے آج کی صحبت میں اس کہکشاں سے اکتسابِ نور کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ اقبال کے نزدیک فن کا ظہور کیسے ممکن ہے?؟
اقبال کے خیال میں "انسان زمان و مکان کے ارتقا کے عمل میں شریک ِفاعل ہے، آزاد ہے، خالق ہے اپنی خودی کے اثبات و نشوونما کے وسیلے سے نفسِ لا محدود سے رشتہ قائم کرتا ہے" (تشکیلِ جدید الہٰیّاتِ اسلامیہ )
اقبال، زمان و مکان کے ارتقائی عمل میں انسان کی فعّالیت کے استحکام، خلّاقی کی بقا اور خودی کے اثبات کے لیے عشق کو لازم قراردیتے ہیں وہ دنیا کے عظیم فن پاروں کو فنکاروں کے اپنے فن سے عشق کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ عشق ان کی اصطلاحات میں وجدان اور تخلیقی قوت دونوں کی جامع اصطلاح ہے۔ اسے اقبال دمِ جبرئیل اور دمِ مصطفی قرار دیتے ہیں۔ عشق کامل ہو جائے تو آدم گری ممکن ہو جاتی ہے اور اسے برتری زیب دینے لگتی ہے۔ تاج محل کے حسن کا رازدریافت کرتے ہوئے اقبال نے کہا ؎
عشقِ مردان پاک و رنگین چون بہشت
می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت
مسجد قرطبہ ایسے عظیم فن پارے پر اتنا ہی بڑا فن پارہ تخلیق کرتے ہوئے بھی اقبال نے اس کی نہاد میں عشق کو موج زن دیکھا ؎
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
عشق، عام لغت میں ایک پامال لفظ ہے لیکن اگر کائنات کے کلیدی لفظوں کی جستجوں کی جائے تو شاید یہی پامال لفظ سرِفہرست ہو گا۔ عشق کا اوّلین مطالبہ " خون جگر"ہے۔
فن کار سے عشق، پہلے قدم پر "مجنون" ہو جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ اقبال اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں ان کاتصوّرِ فن اپنی اساسی جہت میں خونِ جگر کی ضرورت پر زور دیتا ہے ؎
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
میر نے کہا تھا " مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں +کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں " اقبال نے کہا ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
اقبال کے نظامِ فکر میں خودی کا تصوّر کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ اقبال فن اور فنکار کے لیے خودی کے جوہر کو لابدّی قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ استحکامِ خودی سے فن کے نادر نمونے وجود میں آتے ہیں "ضربِ کلیم" کی نظم "دین وہنر" میں کہتے ہیں ؎
سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کرسکیں تو سراپا فسون و افسانہ
اقبال مایوسی ؍قنوطیت اور افسردگی کے خلاف ہیں۔ اقبال ان تمام کو خودی سے محرومی کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔ انھیں عجمی لٹریچر پر بڑا اعتراض یہی ہے کہ اس میں خودی کا جوہر نہیں ہے۔ ؎
ہے شعرِ عجم گرچہ طرب ناک و دلآویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغِ سحر خیز
عشق اور خودی کی منزلیں پالینے والا فنکار الہامی رفعت کی منزل پاتاہے۔ الہامی صلاحیت فن کار کے باطن کے گداز اور اس کی سلامتیِ طبع کے تحفظ سے ممکن ہے اگر فن کار معاشرے کے غیر صحت مندانہ رجحانات میں گم ہو کر باطن کا گداز اور فطرت کی عطاکردہ سلیم الطبعی سے عاری ہوجائے تو الہامی صلاحیت ممکن ہی نہیں رہتی۔ ان منفی رجحانات سے بچ کرالہامی صلاحیت پالینے والے فن کار کا فن اجتہاد کا نمونہ ہوسکتاہے۔ اقبال کہتے ہیں :
"کسی قوم کی روحانی صحت کا دارومدار اس کے شعرا اور آرٹسٹ ( فن کار) کی الہامی صلاحیت پر ہوتاہے"
یہ الہامی حوالہ فن کے اجتماعی پہلو کو دائرہ بحث میں لاتا ہے۔ اقبا ل فن کو زندگی سے غیر منفک طورپر مربوط قرار دیتے ہیں اور زندگی سے ہٹ کر کسی فن کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اجتماعی یا انفرادی بحث کا رخ جو بھی ہو دونوں پہلوئوں سے الہامی صلاحیت کے لیے فنکار کا دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنا لازم قرار پاتاہے۔ ؎
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منوّر ہوں ترے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
اپنی نظر سے زمانے کو دیکھنے کا تجربہ الہامی صلاحیت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور الہامی صلاحیت یقین و اعتماد کی دولت عطا کرتی ہے۔ یقین و اعتماد کی دولت جس سے سرشاری کسی بھی تخلیق کے لیے شرطِاوّلین ہے۔ یقین تخلیق کے لیے زندگی ہے اور بے یقینی موت اقبال نے کہا ؎
بی یقین را لذّتِ تحقیق نیست
بی یقین را قوّتِ تخلیق نیست
بی یقین را رعشہ ہا اندر دل است
نقشِ نو آوردن او را مشکل است
جب کوئی فن کار ان خصائص کو پالیتاہے تو پھر اس کے ہاں سچا فن جنم لیتا ہے۔ ظاہر پرستی، کم کوشی، جاہ طلبی، سہل پسندی اس راہ کی بڑی رکاوٹیں ہیں جب کہ خودی، عشق، الہامی صلاحیت اور یقین واعتماد ? فنکار میں قوّت وشوکت کا احساس پیداکرتے ہیں اور دنیا کاکوئی بڑا فن پارہ قوّت وشوکت سے خالی نہیں۔ فن پارہ جہاں جمال آگیں منظر پیش کرتاہے وہاں اس کی بنیاد میں جلال بھی پوشیدہ ہوتا ہے، دراصل یہ پوشیدہ جلال ہی اسے دوام عطاکرتا ہے۔ جلال، فطرت پر انسان کے غلبے کا اثبات کرتا ہے اور اقبال کے نزدیک انسان فطرت میں رہ جانے والی کمیوں کوپورا کرتاہے۔
مسجد قوّت الاسلام کودیکھ کر اقبال نے کہا تھا ؛
"میرے دل پر اس کی شوکت کی ایسی ہیبت طاری ہوگئی کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں اس مسجد میں نما ادا کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں "۔
اہرام مصر سے متعلق اشعار میں کہتے ہیں ؎
اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی ابدیّت کی یہ تصویر
اقبال کے نزدیک وہ فن جس میں قوت وشوکت نہیں وقت کے سینے کو چیر کردوام پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا دلبری بے قاہری جادوگری ہے اوربا قاہری پیغمبری، یہی قوت وشوکت پژمردگی اور مایوسی سے نجات دلاتی ہے، زندگی میں توازن پیداکرتی ہے، فن کے مذکورہ بالامعیار زندگی میں حرکت پیداکرتے ہیں اور فرد سے آگے بڑھ کراجتماعی وجدان کی صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں۔ ایسا فن ہی حیات آفرینی کی صلاحیت رکھتا ہے اقبال کے مطابق :
"تمام انسانی جدوجہد کا انجام فقط حیات ہے اور تمام انسانی علوم وفنون اس مقصد کے حصول کے تابع ہیں اس لیے ہر علم وفن کی منفعت کا اندازہ اس کی حیات آفریں قوت ہی سے کیاجاسکتاہے۔ اعلیٰ ترین فن وہ ہے جو ہماری طبیعی قوت ِارادی کو بیدار کرے اور ہمیں مصافِ زندگی میں مردانگی سے مقابلہ کرنے کی طاقت بخشے "۔
یہی "اعلیٰ ترین فن "نفس ِلامحدود سے انسان کا رشتہ قائم کرتا ہے، نفس ِلامحدود سے صوفی بھی رشتہ قائم کرتا ہے اور نبی بھی۔ نفسِ لامحدود سے رشتہ کی یہ بحث فنکار کے حوالے سے بھی اہم ہے اس سے ذہن نبی، صوفی اور فنکار کے تجربے کی یکسانیت یا مغائرت کے سوال کی طرف منتقل ہوجاتاہے، اقبال نے اس سوال کا جواب حضرت عبدالقدوس گنگوہی علیہ الرحمتہ کی بیان کردہ ایک خوبصورت تمثیل سے فراہم کیا ہے کہ صوفی اگر معراج پر جائے تو وہ واپسی کاخواہاں نہیں ہوگا جب کہ نبی معراج سے واپس آتا ہے? اقبال نے انسانی فن کو اس بلند پایہ مثال سے سمجھنے کی کوشش کی ہے جو بجائے خود ان کے ذہن میں فن کی عظمت کے احساس کا پتہ دیتی ہے۔ اقبال کے خیال میں فن کار کا تخلیقی تجربہ بنیادی طور پر مذہبی تجربے سے مماثل ہے اس لیے فنکار ایک پست سطح پر پیام بر کے درجے پر فائز ہوتا ہے جو اپنے تجربے سے خلق کوآگاہ بھی کرتاہے۔