پاکستان جرنلسٹس کلب گریس، ایتھنزکے ایک استقبالیے سے راقم کے خطاب کے بعد شرکائے محفل کی طرف سے سوالات کیے گئے۔ پاکستان جرنلسٹس کلب یونان کے صدراوریونان سے شائع ہوانے والے اردواخبار "دیس پردیس" کے مدیر احسان اللہ خان صاحب نے افلاطون کے بارے میں سوال کیا۔ راقم نے اس سوال کاجو جواب دیا ڈاکٹرسکندرحیات میکن نے اسے ریکارڈنگ کی مددسے تحریرکردیاہے۔ ذیل میں یہ جواب پیش کیاجارہاہے:
افلاطون کی سرزمین میں، ایتھنز میں افلاطون پر بات کرنا قصہ زمین برسرزمین کی سی حیثیت رکھتاہے۔ افلاطون اسی شہر میں جہاں اس وقت ہم سب موجودہیں حضرت عیسیٰ ؑ سے کوئی سواچارسو سال پہلے پیداہواتھا۔ اس نے سقراط کی شاگردی اختیارکی اور دنیاکو مکالمات افلاطون جیسی کتاب کا تحفہ دیا۔ افلاطون کاایک بنیادی تصور ہے وہ یہ کہ یہ دنیا حقیقی نہیں ہے وہ یہ کہتا ہے کہ حقیقی دنیا ایک اور عالم میں واقع ہے اور یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں یہ اس کا Replica ہے۔ وہاں جوکچھ ہو رہاہے یہ سب کچھ اس کا عکس Shadow ہے اور سب کچھ اس طرح ہو رہاہے جیسے وہاں پر ہورہاہے۔ اُسے وہ کہتا ہے کہ وہ جو اصلی دنیا ہے وہ عالمِ مثال ہے اورآپ کے سامنے یہ دنیا جو ہے یہ اس کی نقل ہے۔ اقبال نے اس تصور کومسترد Condemn کیا ہے اور بڑی سخت اس پر تنقید کی ہے کیوں؟ اس لیے کہ اگر اصل دنیا کہیں اور ہے اور ہم صرف کٹھ پتلیاں Puppet ہیں جو اس کے سائے کی طرح وہی کچھ کرنے پرمجبور ہیں جو اوپر ہورہا ہے تو پھر ہمارا تو کوئی ارادہ نہ رہا۔ ہمارا تو کوئی اختیار نہ رہا۔ ہم جوکچھ کررہے ہیں اس سے ہماراارادہ تو صفرہوگیا، ہمارے ارادے کا عنصر ختم ہوگیا۔ اقبال کا تصورِ حیات یہ ہے کہ ہم خود مختار ہیں اور ہمیں ذمہ داری دے کر اس دنیا میں بھیجا گیاہے۔ جو ذمہ داری دی گئی ہے اس ذمہ داری کوآپ ادا کرہی نہیں سکتے اگر آپ کواختیار نہ دیا جائے۔ آپشن نہ دیاجائے اور قرآن بھی کہتا ہے وَھَدَیْْنَاہُ النَّجْدَیْْنِ ہم نے دو راستے کھول کر دکھادیے ہیں۔ اِدھر جانا ہے اِدھر جائو، اُدھرجانا ہے اُدھر جائو۔ انتخاب آپ کا ہے اور اگر انتخاب آپ کا ہے تو اس کا مطلب ہے یہ آزادوں کی دنیا ہے۔ اگر انتخاب آپ کا نہیں ہے اور یہ دنیا کسی اور دنیا کی نقل ہے تو پھر آپ مجبورِ محض ہیں۔ تو افلاطون کا جوتصور فن ہے وہ بھی یہی ہے کہ ہم جوتصویربناتے ہیں، جوفن پارہ بناتے ہیں وہ اس دنیا کو، اس دنیاکے مظاہرکو دیکھ کر بناتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا، اس کی تصویر بنائی۔ اب یہ تصور اس کاعکس یاReplica ہے یا اس کا Shadow ہے تو اب یہ جو آرٹ ہے، جو میں نے شعر کہا، میں نے تصویر بنائی، میں نے افسانہ لکھا، کوئی مجسمہ بنایا جو بھی فن تخلیق کیا، یہ اس دنیا کا عکس ہے اور یہ دنیا کسی اور دنیا کا عکس ہے لہٰذا ہمارا ہرآرٹ ہماری ہرکاوش جو ہے وہ حقیقت سے دودرجے دورTwice removed from reality ہے کہ وہ حقیقت سے دو قدم دور ہے تو یہ ہے اس کا تصورِاعیان ؎
جسم خاکی کے تلے جسم مثالی بھی ہے
اک قبا اور بھی ہم زیر قبا رکھتے ہیں
اقبال اس تصورِ اعیان کو شدید تنقید کانشانہ بناتے ہیں کہ یہ انسانوں سے قوتِ عمل چھین لینے والا تصور ہے۔ یہ آپ کے اندر سے جذبے کوختم کردینے والاتصور ہے، یہ آپ کے اندر سے امنگ کوختم کردینے والا تصور ہے۔ اگرایسا ہی ہے تو پھر آپ کوئی آرزو ہی نہیں کرسکتے۔ عالم موجود سے انکار اس رویے کا ذمے دار ہے۔ اسی کو اقبال مسلکِ گوسفندی کہتے ہیں جو موجود کا تو انکارکرے اور وہ جودکھائی نہیں دے رہا اس پر فداہو، اس کے لیے فلسفے میں عالم نامشہودکی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔ اقبال نے افلاطون کو کہا کہ ؎
منکرِ ہنگامۂ موجود گشت
خالقِ اعیانِ نا مشہود گشت
اگر اوپر عالمِ مثال میں ہی سارا کچھ ہورہا ہے اوروہاں سفیر صاحب کی مدت ملازمت ختم ہوچکی ہے تو یہاں آپ جتنے مرضی خط لکھیں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ کے یہاں خط لکھنے سے یا فیس بک پر میسج دینے سے، اظہار رائے کرنے سے، فرق پڑتا ہے تو اس کا مطلب ہے یہ دنیا جس میں آپ رہتے ہیں یہی عالمِ حقیقت ہے۔ اور یہ عالم ابھی نامکمل ہے… کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں …انسان اس کی تکمیل میں اپنا حصہ، اپنافرض اداکررہاہے۔ (جاری ہے)