دوستی کی آزمائش دو مواقع پر ہوتی ہے۔ ایک مشکل وقت دوسرا اختلاف رائے۔ مشکل وقت کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ کئی احباب طفل تسلیاں دینے کی حد تک تو ساتھ دتے ہیں لیکن ہاتھ پکڑ کر مالی، ذہنی یا بدنی الجھن سے باہر نکالنے کی تگ و دو سے کتراتے ہیں۔ اختلاف رائے بھی پیچیدہ مقام ہے۔ دوست وہ تو نہیں جو تعریف پر تو سر دھنے اور رائے کا زاویہ اگر بدل جائے تو دوست کے ظرف کی پیمائش میں لگ جائے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے۔ پاکستان امریکہ کے گن گاتا رہے، اسکی پالیسی پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے مفادات کو داو پر لگادے تو دوستی کا حق ادا ہو گیا۔ دوسری کوئی بھی صورت اس رشتے کو ادھیڑ دیتی ہے۔ پاک امریکہ دوستی چونکہ مفاد کی مٹی سے گندھی ہے اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی دوراہے پر دونوں ملکوں کا ملاپ ہو ہی جاتا ہے۔ اس کے برعکس پاک چین دوستی ایک مستقل عمل کا نام ہے۔ پیچیدگیاں جیسی بھی ہوں دوستی کے بہاو میں کمی آ سکتی ہے لیکن بہاو رکتا نہیں۔ بہت سے موڑ آئے جہاں امریکہ کے بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش میں پاکستان نے بہت کچھ داو پر لگایا، جس سے چین براہ راست متاثر بھی ہوا، لیکن پاک چین دوستی کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی۔
ہر دوستی میں مفاد کی آمیزش ہوتی ہے۔ پاک چین دوستی میں بھی ہو گی، لیکن مفاد کے برعکس نتائج پر چین نے نہ تو پاکستان کو کبھی شرمندہ کیا اور نہ ہی مدد یا ہمدردی کا ہاتھ کھینچا۔
14 جولائی کو خیبر پختونخواہ کے علاقے کوہستان میں داسو ڈیم پر پن بجلی کی تعمیر کے منصوبے پر مامور عملے کی بس پر حملے سے بارہ افراد ہلاک ہوئے۔ جن میں سے نو چینی باشندے تھے۔ اول اول تو اسے روڈ ایکسیڈنٹ کہا گیا۔ بعد میں حادثہ دہشت گردی کی واردات کے طور پر سامنے آیا۔ کسی بھی کالعدم تنظیم نے اس واقعہ کیذمہ داری قبول نہیں کی۔ Tsinghua University یونیورسٹی کے نیشنل سٹریٹیجی کے تحقیقیشعبہ کے سربراہ Qian Feng کے مطابق یہ حملہ بلوچستان میں مقیم دہشت گرد یا تحریک طالبان پاکستان کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ بھارت کا اس معاملے میں ملوث ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت پاکستان کے ہر ترقیاتی منصوبے کے خلاف ہے جیسا کہ سی پیک۔ جس پر دشمنی کی حد تک پہنچی ناگواری کا بھارت نے نہ صرف اظہار کیا بلکہ امریکہ کو اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے پر اکسایا بھی۔ چین کی خطے میں بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے میں کواڈ کی تنظیم نو کی گئی۔ 2004 میں سکیورٹی ڈائیلاگ کی خاطر بنائی گئی اس تنظیم نے پہلی بار نومبر 2020 میں مشترکہ مشقیں کیں جن میں امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کی بحریہ نے حصہ لیا۔ کواڈ انہیں چار ممالک پر مشتمل تنظیم ہے جو چین کی بحری طاقت کو کمزور رکھنا چاہتی ہے۔ اس تنظیم کا سب سے فعال ملک بھارت ہے۔ داسو پن بجلی منصوبے پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں پر حملہ بھی اسی دشمنی کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت تحقیقی رپورٹ ہی سے معلوم ہو گی۔
کئی حلقوں میں اس واقعہ کو پاک چین دوستی میں اختلاف اور رخنے کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس حادثے نے ایک بار پھر پاکستان اور چین کے درمیان روابط کی پختگی کو واضح کر دیا۔ سوشل میڈیا پر چینی حکام کی جانب سے ارسال کردہ ایک خط گردش کر رہا ہے جس میں چین نے داسو ڈیم پر کام موخر کرنے کا عندیہ دیا ہے بعد ازاں یہ مراسلہ واپس لینے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے والے دیسی ٹولے کے مطابق یہ خط چین کا پاکستان کو دو ٹوک جواب ہے۔ ایک ملک جس کے نو باشندے بیرون ملک دہشت گردی کی واردات میں مارے جائیں، کیا اس سے اسی منصوبے پر کام جاری رکھنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اگر یہ واقعہ چین میں بھی پیش آتا تو چینی حکومت منصوبے کو کچھ دیر کے لیے بند کر دیتی۔ پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے والے اس دیسی ٹولے کی سمجھ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ چین نے اپنے باشندوں کے زخموں پر مرہم رکھنی ہے۔ پاکستان کی مخالفت میں بغلیں بجانے والے اس ٹولے کو شائد پتا نہیں کہ چین نے دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کا اس مشکل وقت میں ساتھ دینے کا صرف فیصلہ ہی نہیں کیا بلکہ کرمنل انوسٹی گیشن ٹیم کو اس واقعہ کی تحقیق کے لیے پاکستان میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی معاونت کے لیے بھیجا ہے۔
چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق اس حادثے کی تحقیق اور اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال میں چین پاکستان کی معاونت کا پابند ہے۔ اخبار کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان نے چاہا تو دشمن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے چین میزائل یا کسی بھی قسم کی سپیشل فورس کے استعمال میں بھی تامل نہیں کرے گا۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان مخالف قوتوں کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان میں چینی اہلکاروں پر حملہ آوروں کا شمار چین کے دشمنوں میں ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حملہ صرف پاکستان نہیں بلکہ چین کے خلاف بھی ہے اور اس کا بینادی مقصد دونوں ممالک کی دوستی میں رخنہ پیدا کرنا ہے۔
اس بیان کے بعد تو چین نے پاکستان کا ایک بار پھر دوست ہونے کا حق ادا کردیا۔ اب باری پاکستان کی ہے۔ گو فوج کی ایک پوری ڈویژن چینی عملے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ہے لیکن دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، خاص طور پر بلوچستان، جہاں ہر روز ہمارے جواں سال سکیورٹی اہلکار اور افسر مارے جاتے ہیں، کے پیش نظر موجودہ سیکیورٹی ماڈل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو درپیش نئے چلنجز کے مطابق پالیسی سازی کی جائے۔ دشمن ابھی ہم سے آگے چل رہا ہے۔ اگر بر وقت اس کی چال کا انسداد نہ کیا گیا تو پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔