"اے نفس اور حرص و ہوا کے پُتلے! تم ظاہری صورت میں تو فرشتے لگتے ہو مگر معنوی لحاظ سے دیو کی طرح ہو۔ ظلم کرنے میں شدادی خصلت اختیار کررکھی ہے۔ تم غریبوں کی آہ و فریاد پر کان نہیں دھرتے۔ اپنی بداعمالیوں کے سبب منظل کی طرح کڑوے ہوچکے ہو مگر ظاہر یہ کرتے ہوئے جیسے سیب کی طرح میٹھے ہو حالانکہ تمہاری روح بیمار ہے۔ کاش تو پوست تلے جل جائے"۔
"کیا عجیب ہے کہ ہر کوئی اپنے عہد کے مقابلے میں عہد گزشتہ کو اچھا قرار دیتا ہے، یہ تو اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہے"۔
پشتو زبان کے قادرالکلام شاعر رحمن بابا ایک صاحب عزم و استقلال، دانشمند وسماج سدھار مصلح تو تھے مگر حریتِ فکرکے علمبردار بھی۔ ان کے خیال میں نفسانی خواہشات قبضہ گیری کے جنون اور خواہشات کی غلامی نے انسان کو درندہ بنادیا ہے۔ وہ (انسان) اپنی تخلیق کا مقصد بھلا کر دنیا کے پیچھے بھگتا چلا جارہا ہے۔
رحمن بابا کہتے ہیں "بدکردار و بداخلاق آدمی کو نیست و نابود ہوجانا چاہئے خواہ وہ بھائی ہو یا عزیز جاں"۔
رحمن بابا (عبدالرحمن مہمند) 1042ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ملا محمد یوسف یوسفزئی سے حاصل کی۔ مُلا محمد یوسف ایک عالم باعمل، مجاہد اور آزادی پسند کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے شاگرد عزیز عبدالرحمن مہمند المعروف رحمن بابا میں بھی یہ خوبیاں نمایاں ہیں مولانا عبدالقادر کے بقول پشتو شاعری میں جو مقبولیت رحمن بابا کو ملی وہ کسی اور نصیب نہیں ہوئی۔
رفیق شنواری نے رحمن بابا کو پشتو زبان کا حافظ شیرازی قرار دیا۔ پشاور کوہاٹ روڈ پر واقعہ گائوں"بہادر کلی" میں پیدا ہونے والے رحمن بابا نے زندگی بھر آزادی اظہار، حریت پسندی، سماجی مساوات کا درس دیا۔ افغان محققین کے مطابق ان کا سال پیدائش 1042ہجری مگر سال وفات 1128 ہجری کو قرار دیا مگر دوست محمد کامل اور قلندر مومند میں ان کے سال وفات 1123ہجری پر اتفاق پایا جاتا ہے۔
رحمن بابا جس دور میں پیدا ہوئے وہ عہد مغلیہ سلطنت کے زوال کا ابتدائیہ سمجھا جاتا ہے۔ پشتونوں اور ہندوستان کے مغل حکمرانوں کے تعلقات (ہمایوں عہد کے سوا) کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے۔ پشتو کے ایک اور بلند پایا شاعر اور مجاہد حریت فکر خوشحال خان خٹک نے تو اپنی شاعری سے بھی مغلوں کے خلاف دودھاری تلوار کا کام لیا۔ خوشحال خان خٹک کے بقول
"جس کے کانوں میں میری تلوار کی جھنکار پہنچ چکی ہے وہ خواب میں بھی لرزتا ہوا چارپائی سے گرجاتا ہے"۔ "اس زمانے میں، میں ہی تو ہوں جس نے اورنگزیب کے دل کو داغدار بنارکھا ہے"۔
بابر سے اورنگزیب عالمگیر تک کے مغل بادشاہوں اور پشتونوں کے درمیان قدم قدم پر جو پنجہ آزمائی رہی اسے پشتو ادب میں خصوصی مقام حاصل ہے۔ رحمن بابا نے اپنے عہد کو کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ استاد مُلا یوسف کی رہنمائی، خوشحال خان خٹک شاعری اور اپنی آزاد روی کی وجہ سے وہ (رحمٰن بابا رح) گروہی بالادستی، درباری پن اور جنگ و جدل کے شدید ناقد بن کر ابھرے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ (رحمن بابا) کہتے دکھائی دیتے ہیں"لوگ کہتے ہیں کہ قیامت جمعہ کو ہوگی مگر میں نے اسی دور میں یک شنبہ (ہفتہ) کے دن قیامت برپا ہوتے دیکھ لی"۔ بلھے شاہ کے بعد رحمن بابا دوسرے صوفی شاعر ہیں جنہوں نے داراشکوہ کے قتل پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا "بادشاہوں کو من مانیاں کرنے کی ایسی برت عادت ہوتی ہے کہ وہ انسانیت اور علم کا نقصان کرکے تخت کو مضبوط بناتے ہیں"۔
صاحبان اقتدار کے اطوار سے نالاں رحمن بالا ایک مرحلہ پر کہہ اٹھے "ظالم حکمرانوں کی وجہ سے گور، آگ اور پشاور تینوں ایک سے ہوگئے ہیں"۔ رحمن بابا نے اورنگزیب عالمگیر کو ایک حریص اور چالاک بادشاہ قرار دیا۔ ان کے خیال میں اگر عالمگیر گردنیں اڑانے کی بجائے دلوں کو فتح کرنے کا راستہ اپناتا تو ہندوستان اور اس میں بسنے والوں کا بھلا ہوتا"۔
رحمٰن بابا کہتے ہیں"زمانہ کیا ہے یہ تو انسان کے حالات کا موسم ہے، کبھی زہر سے کڑوا اور کبھی شہد سے میٹھا"۔ "آدمی جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ کانٹے بوکر انگوروں کی بیل چڑھانے کی خواہش عقل کے اندھے ہی کرسکتے ہیں۔ زندگی کے اصول سب کے لئے یکساں ہوتے ہیں۔ غم ہجراں آسان ہوجائے تو اور کس غم کا ذکر کریں"۔ "کیسی عجیب بات ہے میں گھر میں درہم و دینار نہیں رکھتا پھر بھی لوگ مجھے دنیادار ہی سمجھتے ہیں۔ آئینہ میں اپنی ہی شکل دکھائی دیتی ہے"۔
کٹھ ملائوں، جاگیرداروں اور خوانین کے مخالف رحمن بابا فرماتے ہیں"ملنگوں اور خوانین کا آپس میں میل جون ممکن ہی نہیں۔ کمزوروں کی محنت پر پلنے والے خانوں کو کیا معلوم فقیری کس کو کہتے ہیں"۔ دنیا میں دنیا سے ہی بات بن سکتی ہے، مجھے دنیا سے کیا میرا گھر تو صحرا ہے۔ گرم زمین پر قیام کرنا مشکل ہے۔ رحمٰن کے ساتھ اس حال میں کوئی کیا زندگی گزارے گا۔
"بارانی زمین پر زندگی گزارنے والوں کے چہروں پر بھی آب نہیں ہوتا"۔ "پانی چوری کرنے سے صاحبان منبرومحراب بھی نہیں کتراتے"۔ میں تو اپنے خالق کی پناہ کا طلب گار ہوں۔ "جن لوگوں کے لئے پانی کا ایک قطرہ گوہر نایاب ہو ان سے غسل اور وضو کے بارےمیں سوال کیسا"۔ "سفید فام دلبروں سے میرا تمکین شعر بہتر ہے"۔
ان کے خیال میں آدمی پر لازم ہے کہ وہ انسان بننے کی شعوری کوشش کرے اور حقِ تخلیق کی ادائیگی کے لئے ہمہ وقت تیار۔ حقِ تخلیق بارے ان کی دوٹوک رائے یہی ہے۔ مخلوق سے محبت، بانٹ کر کھانا، حصول علم کے لئے ہر مشکل کا جواں مردی سے مقابلہ کرنا، جو حاصل ہوجائے اس میں دوسروں کو شریک کرنا۔ وہ عشق کو اپنا پیرومرشد قرار دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں"عشق عاشق کے لئے ایسا پیرو استاد ہے کہ اس جیسا دوسرا کوئی ہو ہی نہیں سکتا"۔ میں ازخود آپ پر شیدا نہیں ہوا بلکہ آپ ہی کی طرف سے ندا آئی ہے۔ "عشق بازار میں فروخت ہونے والی چیز نہیں یہ تو عطا ہے، اس کی جو ہر کسی پر ظاہر نہیں ہوتا"۔ "جو نفس کے پیچھے چلتے ہیں وہ رسوا ہوتے ہیں۔ بندہ تو وہ ہے جو نفس کو روند کر جیئے"۔ "رحمن کو عاشقی میں بینائی ملی اگر کوئی عاشق کو اندھا کہے تو خود رسوا ہوگا۔ عاشق تو من کی آنکھ سے دیکھتا ہے"۔
"اس سے زہدوتسبیح، نیکی اور واجبات بارے کیا پوچھتے ہو جس پر عشق فرض ہوا ہو"۔ "عاشقوں میں عیب ڈھونڈنے والے خاک چاہٹتے ہیں"۔ "یار کی محبت نے مجھے شیدا بنادیا۔ یہ میں کہاں ہوں یہ تو سارے کا سرا وہی ہے"۔ منصور بن حلاج کی طرح رحمن بابا بھی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں"سوائے یار کے جو بھی کچھ ہے وہ عاشقوں کے دین کی روشنی میں کفر ہے"۔ "یار سے جدائی کا ایک پل بھی گوارا نہیں۔ مجھے بقاء سے نہیں فنا سے نسبت عزیز ہے"۔
"عاشق ہجرووصال کے روگوں سے آزاد ہوتا ہے"۔ "دن میں آفتاب اور رات میں ماہ کامل کا روپ رحمن کا محبوب ہی بدلتا ہے۔ میں اور وہ۔ وہ اور میں۔ ایسا بھی ہے اور ویسا بھی"۔ " رقیبوں اور کالی بلائوں میں کوئی فرق نہیں۔ خدا مجھے کالی بلائوں اور دین فروشوں کا منہ نہ دکھلائے"۔ "میں تو خود پر ملامت کرتا رہتا ہوں لوگ نجانے مجھ پر ملامت کے لئے مرے کیوں جارہے ہیں"۔
"دنیا تو پیٹ بھروں کی مستیاں ہے، میں تو زندہ رہنے کے لئے چند لقموں پر قناعت کرتا ہوں"۔ "انسان کا دل کعبہ ابراہیمؑ سے زیادہ محترم ہے جو اجڑے دل کو آباد کرے گا اس کا ثواب شمار کرنا مشکل ہے"۔
رحمن بابا کی فکر، کلام اور ذات میں ہمیں بلھے شاہ صاف دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ نے جی نے ہی تو کہا تھا "لوگ بلھے کو نصیحتیں کرتے ہیں مسجد میں جابیٹھو، کوئی پوچھے ان سے مسجد میں فقط بیٹھے رہنے سے کیا حاصل، نماز دنیا کے دھیان سے محفوظ نہ ہو تو ظاہری پاکیزگی کا فائدہ" رحمن بابا بھی منصور و سرمد اور شاہ لطیف و بلھے شاہ کی راہوں کے ثابت قدم راہی ہیں۔ ان کے خیال میں"اگر اندر کا کج صاف نہ ہو تو نماز و روزہ اور دوسری عبادات کس کام کیں"۔
" لوگ نجانے اس کو پانے کے لئے زمانے کی ٹھوکریں کیوں کھاتے ہیں۔ وہ تو من میں رہتا ہے بس دیکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہے۔ یہ آنکھ صرف عاشق کے پاس ہوتی ہے"۔
پشتو ادب پر کام کرنے والے ایک برطانوی محقق میجر راونی نے حضرت رحمن بابا کو شیکسپیئر سے بھی بلند پایہ شاعر قرار دیا۔ مجھ طالب علم کے خیال میں"رحمن بابا منصور و سرمد کے ایک نئے جنم کی صورت ہیں"۔
مخلوق کی محبت، علم، انصاف، دردمندی، تقسیم پر کامل یقین رکھنے والے رحمن بابا نے ساری عمر طمع کے گھاٹ پر اترنے والوں سے نفرت کے بجائے ان میں آگہی کی شمعیں روشن کرنے کا فرض نبھایا اور دمِ آخر یہ کہتے گئے "تجھ سے تیری رضا کے طلب گار ہیں اسی لئے تیری طرف پلٹ آئے ہیں"۔