ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری کا کہنا ہے کہ 9 مئی افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں یہ پاکستانی عوام کا مقدمہ ہے نیز یہ کہ 9 مئی کے ملزموں کو جلد سے جلد سزا دینا ہوگی ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے ملزموں کو سزا نہ دی گئی تو کسی کی جان و مال محفوظ نہیں رہے گی۔ یہ بھی کہا کہ فوج پر حملہ آور ہونے والوں سے بات نہیں ہوگی۔ انتشاری ٹولے کے لئے ایک ہی راستہ ہے وہ معافی مانگے نفرت کی سیاست چھوڑے سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرے۔
ڈی جی آئی پی آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتی ہے فوج سے نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو پھر وہ 2014ء کے دھرنے کی بھی تقحیقات کرے ان کا کہنا تھا کہ ایک مخصوص پارٹی کو 1.8کروڑ ووٹ پڑے جو مجموعی آبادی کا 7 فیصد بنتا ہے۔
بری فوج کے ترجمان نے غالباً یہ مدنظر نہیں رکھا کہ 1.8کروڑ ووٹ کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے تحریک انصاف نے حاصل کئے ہیں ملک کی مجموعی آبادی 25کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ ملک میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 13 کروڑ سے زائد ہے اس طور ان کا سات فیصد والا حساب درست نہیں ہے۔
جہاں تک جوڈیشل کمیشن کے قیام کے سوال پر ان کے جواب کا تعلق ہے تو اسے بھی نرم سے نرم الفاظ میں غیرحقیقت پسندانہ ہی کہا جائے گا۔
صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ 2014ء میں ڈی چوک پر دیا گیا دھرنا مینج دھرنا تھا وہ دھرنا ایک منتخب حکومت کے خلاف ریاستی ایجنسیوں کی محنت کا ثمر تھا۔ اس دھرنے کی وجہ سے پاک چین تعلقات متاثر ہوئے تب تجزیہ نگاروں کی رائے یہی تھی کہ یہ دھرنا پاک چین سی پیک منصوبے کے خلاف ملک میں موجود امریکی لابی کی کارستانی تھی۔
امریکی لابی کے کرداروں کے حوالے سے جن شخصیات پر انگلیاں اٹھیں کیا بری فوج کوئی جوڈیشل کمیشن بننے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس خواہش کہ تحقیقات کا آغاز 2014ء کے دھرنے سے ہو ان کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے تعاون کرے گی؟
اسی طرح 2018ء کے انتخابات سے قبل ریاستی سرپرستی میں بڑی سیاسی جماعتوں میں کی گئی توڑپھوڑ اور موثر سیاسی شخصیات کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لئے مجبور کرنے کےساتھ انتخابی عمل میں کھلم کھلا مداخلت کرکے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا معاملہ بھی جوڈیشل کمیشن کے سامنے اگر آتا ہے تو کیا اس مداخلت کے ریاستی کردار بھی کمیشن میں پیش کئے جائیں گے؟
ان سوالات کے جواب کو سمجھنے کے لئے پرویز مشرف والے معاملے کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس سابق فوجی آمر کے خلاف قائم ہوئے مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے فوجی ترجمان نے ہی یہ کہا تھا کہ سابق آرمی چیف کے خلاف مقدمہ چلانے سے جوانوں کا مورال کم ہوگا۔
اب اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی بات مان کر ایک ایسا کمیشن بنادیا جائے جو تحقیقات کا آغاز 2014ء سے کرے تو اس صورت میں دو سابق آرمی سربراہوں کے ساتھ خفیہ ایجنسیوں کے کم از کم 5 سربراہوں کو کمیشن کے سامنے پیش ہوکر جوابدہی کرنا ہوگی۔
اندریں حالات بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اگر کمیشن بنے اور تحقیقات کا آغاز 2014ء کے دھرنے سے ہو تو پھر زیادہ بہتر ہوگاکہ تحقیقات کا دائرہ ڈیڑھ دو عشرے پیچھے تک لے جاکر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تحریک انصاف سے قبل ریاست نے جو تجربات کئے ان کے نتائج کیا نکلے؟
ہماری رائے میں لفظوں کی تکرار اور جذباتی جملوں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دستور پاکستان میں فرد اور ادارے کے لئے جو حد متعین ہے سبھی اس حد میں رہ کر معاملات کو آگے بڑھائیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی دھواں دھار پریس کانفرنس پر سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا جارحانہ ردعمل خلاف واقعہ نہیں پی ٹی آئی کی اٹھان اسی جارحانہ طرزعمل کی مرہون منت ہے۔
سیاسی جماعتوں کے خلاف مبینہ پاکبازوں کا ہجوم جمع کرکے جو ماحول بنایا گیا آج وہ اپنے خالقوں کے لئے عذاب بن چکا اس سارے معاملے میں نقصان دستور کی حکمرانی، جمہوریت، سماجی اخلاقیات اور عوامی یکجہتی کا ہوا۔
9 مئی 2023ء کو جو ہوا اس پر سبھی کو افسوس ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کے ہر تجربے کا نتیجہ 9 مئی کی صورت میں ہی برآمد ہوتا آیا ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ فوج پر حملہ آور ہونے والوں سے بات نہیں ہوگی لیکن ماضی میں توان لوگوں سے بھی کابل میں جاکر مذاکرات کئے گئے جنہوں نے مجموعی طور پر 85ہزار پاکستانیوں کو اپنی درندگی کی بھینٹ چڑھایا تھا۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ عوام اور محکموں و اداروں میں تقسیم کی خلیج بہت گہری ہے اس کی ایک سادہ سی مثال بعض مقدمات میں دو دو سال سے چلتی عبوری ضمانتیں ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج نہیں تو کل معاملات کو سیاسی انداز میں ہی سلجھانا پڑے گا۔ یہ بجا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان تواتر کے ساتھ کہتے آرہے ہیں کہ مذاکرات صرف آرمی چیف سے ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی جن سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں وہ ان پر ہی اٹھتے بیٹھتے اپنا مینڈیٹ چھیننے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا درست ہے کہ مذاکرات سیاسی جماعتوں میں ہوتے ہیں فوج سے نہیں لیکن انہیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا ہوگاکہ پی ٹی آئی کی نشاط ثانیہ ریاست کی سرپرستی میں ہوئی اور ماضی میں یہ تسلیم بھی کیا گیا کہ "ہم اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل چاہتے تھے"۔
بہرطور یہ حقیقت ہے کہ سیاسی و معاشی بحران اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے نتائج سبھی کو بھگتنا پڑیں گے کیونکہ اصلاح احوال کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں فی الوقت تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
بات نکلی تو " دور " تلک جائے گی