Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Dostan e Rahim Yar Khan, Hamari Mazrat Qubool Kijiye

Dostan e Rahim Yar Khan, Hamari Mazrat Qubool Kijiye

بزم فریدؒ، وسیب اتحاد اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رحیم یار خان کے دوستوں اور خانوادہ مرحوم حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ سے دلی معذرت کہ ان کے حکم اور خواہش کے باوجود میں ڈسٹرکٹ بار میں جمعہ 19 اپریل کی سپہر میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں اپنی شدید خواہش کے باوجود حاضر نہیں ہوسکا۔

اس عدم حاضری کی وجہ علالت کے باعث طویل سفر کرنے میں مشکل کا پیش آنا ہے۔ بوڑھاپا بذات خود ایک بیماری ہے۔ پچھلے چند برسوں سے اسٹک کے سہارے چلتا ہوں۔ سفر کرنے سے گریز کو عادت تو نہیں بنایا چونکہ مشکل پیش آتی ہے اس لئے بہ امر مجبوری سفر کرتا ہوں۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران اپنی علالت کے باوجود دو بھائیوں اور ایک خواہر نسبتی کے سانحہ ارتحال کی وجہ سے مجبوراً چند طویل سفر کرنا پڑے۔ ملتان، شیخوپورہ، اسلام آباد، مظفر آباد، راولپنڈی، دبیرن کلاں، حال ہی میں میرا ملتان کا سفر۔

میں لاہور سے روانہ ہوتے وقت ذہنی طور پر خود کو ملتان سے رحیم یار خان کے سفر کے لئے آمادہ کرچکا تھا اس سلسلے میں رحیم یار خان کے چند دوستوں اور بالخصوص عزیزم شاکر حسین دشتی اور برادرم جاوید دشتی ایڈووکیٹ سے بات بھی ہوئی قیام ملتان کے دوران ہی سنگتی مظہر سعید گوپانگ کا فون آگیا۔

انہوں نے پروگرام دریافت کیا تو عرض کیا میں عید کے تیسرے دن ملتان سے رحیم یار خان کے لئے روانہ ہوں گا۔ مظہر سعید بولے، شاہ جی بزم فریدؒ اور دیگر احباب ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے تعاون سے مرحوم دوست حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ کے لئے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کررہے ہیں ہماری خواہش ہے کہ آپ اس موقع پر رحیم یارخان آئیں۔

شاکر دشتی اور دیگر دوستوں نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا۔ تب طے ہوا کہ میں ملتان سے لاہور واپس چلا جاتا ہوں 19 اپریل کو تعزیتی ریفرنس میں شرکت کے لئے 18 کی شام کو یا رات گئے لاہور سے رحیم یار خان کے لئے نکلوں۔

اب کیا کہوں کہ ارادے بنتے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں میری علالت اور گزشتہ دو روز سے گھٹنوں میں ہونے والی شدید تکلیف سفر کے مانع ہوئی۔ اس تکلیف کے باعث میں تعزیتی ریفرنس میں شرکت کے لئے لاہور سے رحیم یار خان کا سفر نہیں کرپایا۔

شرمندہ بھی ہوں اور دل پر بوجھ بھی ہے۔ ہم جو بھاگ بھاگ کر دوستوں کی غمی خوشی میں شریک ہوا کرتے تھے بیماریوں نے اس حال سے دوچار کردیا ہے کہ سات آٹھ گھنٹے کا سفر نہیں ہوسکا، باردیگر خانوادہ حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ، بزم فریدؒ، وسیب اتحاد اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رحیم یار خان کے قابل احترام دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ وعدہ خلافی ہوئی۔

اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تب بھی گھٹنے میں درد کی وجہ سے بیٹھنے میں دقت ہورہی ہے لیکن روزی روٹی کے وسیلے یہی حرف ہیں۔

عزیز جاں دوست حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ کے سانحہ ارتحال پر ان سے تعلق کے ماہ و سال کی یادوں سے بھرا کالم لکھا تھا۔ حسن بلوچ ایک شاندار انسان محبتی دوست، روایتی میزبان اور ترقی پسند افکار کا دلدادہ شخص تھا ایسا شخص کہ اس کی باتیں اور قصے دوچار نہیں ہزار ہیں۔

ان کی بزلہ سنجی کے سبھی دوست معترف رہے۔ وہ ایسا ہی غضب کا جملہ باز تھا۔ اپنے بعض جملوں سے اس نے وسیب کے کچھ دوستوں کو ناراض بھی کیا لیکن یہ روٹھنا منانا، دوستی و تعلق اور اختلاف زندگی کے میلے ہیں۔

حسن زندگی کے میلے میں شاندار طریقے سے شریک ہوا اور خوب حظ اٹھاتا رہا۔ رحیم یار خان ڈسٹرکٹ بار ا یسوسی ایشن کے خازن کے منصب کے لئے اس نے چند برس قبل انتخابات میں حصہ لیا ایک شاندار کامیابی اس کے حصے میں آئی اس انتخابی مہم کے دوران اس نے معروف بزرگ قانون دان سید مجید زیدی ایڈووکیٹ کو ووٹ کی درخواست پر ان کے انکار کے جواب میں جو برجستہ جواب دیا اس سے نہ صرف زیدی صاحب محظوظ ہوئے بلکہ انہوں نے دو قدم آگے بڑھ کر اس کے لئے وکلاء برادری اور بالخصوص اپنے عزیز وکیلوں سے حسن معاویہ کے لئے ووٹ مانگے۔

لالہ عمر علی خان بلوچ مرحوم میرے اور حسن کے مشترکہ بڑے تھے ان کی زندگی کے آخری کئی برس رحیم یارخان میں ہی گزرے جہاں وہ سماجی خدمت اور آگہی کے کئی منصوبوں پر کام کرتے رہے ہمارے بلوچ لالہ (عمر علی خان بلوچ) کا سانحہ ارتحال بھی وہیں ہوا۔ لالہ کی زندگی اور قیام رحیم یار خان کے برسوں میں جب بھی رحیم یار خان گیا ہم تینوں نے خوب محفل جمائی ڈھیر ساری باتیں کیں۔ پرانے قصے چھیڑے۔ دوستوں کے سینوں پر پائوں رکھ کر آگے نکلنے کے جنون کا شکار ان دوستوں کا ذکر کیا جو اب ہمیں جانتے ہی نہیں۔

حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ کی سب سے بڑی خوبی اس کا مطالعہ اور دوستوں سے مختلف موضوعات پر مکالمے کا سلسلہ جاری رکھنا تھا۔ مطالعہ کے حوالے سے وہ کبھی بدہضمی کا شکار نہیں ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ اسے اپنے مطالعے مکالمے اور منفرد انداز میں سوچنے کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی مگر وہ ان افتادوں سے گھبراکر پسپا نہیں ہوا۔

وہ شعوری طور پر اس امر سے کاملاً آگاہ تھا کہ پہلے قدم کی پسپائی آخری قدم کی پسپائی نہیں ہوتی۔ ہم نے درجنوں ملاقاتوں میں کئی کئی گھنٹے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس کی طرح کی بعض نشستوں میں ہمارے مشترکہ دوست عبید خواجہ۔ حیدر چغتائی اور ڈاکٹر احمد بھی شریک ہوتے ان کی موجودگی میں محفل کا رنگ "چوکھا" ہوجاتا۔

حیدر چغتائی معروف محنت کش رہنما اور صاحب مطالعہ شخص ہیں۔ ڈاکٹر احمد طبیب سے زیادہ مطالعہ کے رسیا۔

میں معذرت نامے سے عبارت یہ تحریر لکھتے وقت رحیم یار خان نہ جاسکنے پر شرمندہ ہوں۔ اس شرمندگی کی دووجوہات ہیں ایک تو وعدہ خلافی گو یہ علالت کی وجہ سے ہوئی۔ دوسری اس لئے کہ رحیم یار خان وہ شہر ہے جس نے جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں طویل قیدوبند سے رہائی کے بعد مجھے اس وقت پناہ اور روزگار کا ذریعہ فراہم کیا جب کوئی اخبار اور جریدہ فوجی حکومت کے ڈر سے مجھے ملازمت دینے کے لئے تیار نہیں تھا تب لالہ ظفر اقبال جتوئی اور مرحوم لالہ ریاض احمد خان کورائی کے مشترکہ دوست ضیاء اللہ باجوہ نے مقامی طور پر شائع ہونے والے اپنے روزنامے، روزنامہ "شہادت" میں مجھے نیوز ایڈیٹر کے طور پر ملازمت دی۔

شہادت میں سال سوا سال کام کرنے کے دوران بہت ساری نئی باتیں سیکھیں۔ مانیٹرنگ، کاپی پیسٹنگ، ادبی صفحہ مرتب کرنا، "اک دستک بند کواڑوں پر" کے عنوان سے شہادت میں کالم لکھا۔ اداریہ بھی لکھتا تھا کہنے کو یہ نیوز ایڈیٹر کی ملازمت تھی مگر پانچ سات آدمیوں کا کام تنہا کرنا پڑتے ابتداً میں رات کو دفتر میں ہی قیام کرتا تھا بعد میں گلمرگ روڈ پر مکان کرایہ پر لے لیا۔

جن دنوں دفتر میں قیام تھا تب دفتر کی صفائی ستھرائی کے فرائض بھی ادا کئے۔

اس شہر دلبراں میں اور بھی دوست ہیں عزیزم احمد کانجو ایڈووکیٹ ہمارے نوجوان دوست ہیں ان کے والد بزرگوار عبدالمجید کانجو ہمارے دیرینہ کرم فرما اور دوست ہیں۔ سیدی خلیل بخاری، مظہر سعید گوپانگ، حکیم سید خلیق الرحمن، خود مرحوم حسن معاویہ ایڈووکیٹ کے برادر خورد مولانا عمار نذیر بلوچ، شاکر دشتی، جاوید خان دشتی ایڈووکیٹ اور دیگر مہربان بھی ہیں ان سبھی سے معذرت چاہتا ہوں کہ مرحوم و مغفور حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ کے لئے منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں حاضر نہیں ہوسکا۔

یار زندہ صحبت باقی۔ سانسوں کی ڈور سلامت رہی تو دوستوں کی زیارت کے لئے حاضری دوں گا۔ حق تعالیٰ ہمارے مرحوم دوست کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے آمین۔

وہ حقیقی معنوں میں مردِ آزاد تھا زندگی بھراسے جو درست لگا اس پر ڈٹا رہا۔ گردن تک تعصبات، عدم برداشت، ذات پات اور طبقاتی امتیازات میں دھنسے سماج میں خاندانی عقیدوں سے بغاوت کرکے جینا بہت مشکل ہے مگر اس نے اس مشکل کا بوجھ آخری سانس تک اٹھایا۔ کیسا شاندار اور اُجلا دوست تھا جو نہ رہا۔