آج عیدالفطر ہے، سال 1990ء کی عیدالفطر کے دن نماز عید کے بعد ہمارے والد بزرگوار سید محمود انور بخاری اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگئے۔ میجر بخاری فوج سے الگ کئے جانے کے بعد سے سیاسی و فکری طور پر جماعت اسلامی کی جدوجہد کا حصہ بنے۔
فوج سے الگ کئے جانے کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے چند ساتھی افسروں کے ہمراہ 1950ء کی دہائی میں برپا ہوئی ایک مذہبی تحریک کے دوران سید مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو دی گئی سزائے موت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ غالباً یہ 12 لوگ تھے جنہیں فوج سے رخصت کردیا گیا۔
میں اپنے والد بزرگوار کی مذہبی فہم اور سیاسی پسندیدگی ہر دو کے بارے کبھی بھی اپنے اندر ہم خیالی نہیں د یکھ پایا۔ دیگر چند وجوہات کے ساتھ ان کا انتہائی سخت گیر مذہبی طرز عمل (گو زندگی کے آخری برسوں میں اسے انہوں نے خود تک محدود کرلیا تھا) اور نماز و فرائض دینیہ کے حوالے سے اولاد پر حد سے زیادہ سختی نے بھی ہمارے درمیان دوریوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی بُعد بھی پروان چڑھا یا۔
خیر یہ تذکرہ یونہی ہوگیا۔ والد بزرگوار 1990ء کی عیدالفطر کے روز دنیائے سرائے سے رخصت ہوئے اپنے والد سے شدید نظریاتی و مذہبی اختلافات کے باوجود مجھے یہ اعتراف ہے کہ ان کا مذہبی و سیاسی نظریہ جو بھی رہا اس کے لئے انہوں نے اپنے سفر حیات میں نہ صرف ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا بلکہ 72 سال کی عمر میں زندگی بھی اسی راہ پر نچھاور کردی۔
عجیب اتفاق ہے کہ میرے والد بزرگوار جماعت اسلامی اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے ذریعے افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ میں عملی طور پر سات سال تک شریک رہے اسی دوران راہی ملک عدم ہوئے۔
ان ماہ و سال کی طرح آج 33 برس بعد بھی مجھ طالب علم کی یہ رائے ہے کہ جہاد کے نام پر جرنیلوں جماعت اسلامی اور مولویوں کی تجارت نے چند درجن خاندانوں کو کروڑ و ارب پتی بنادیا لیکن ہزاروں خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے۔
خود جہادی تجارت کے چھوٹے بڑے بروکرز اور پرچون فروشوں نے اپنے بچے بھانجے بھتیجے اور بھائی جہاد کے ان برسوں میں محفوظ کرکے رکھے۔
عیدالفطر سے ایک دن قبل جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو مجھے اپنے والد گرامی بہت شدت سے یاد آرہے ہیں۔ ان سے اپنے تمام تر اختلافات اور دوریوں کے باوجود میرے دل میں ان کے لئے ڈھیروں احترام اور محبت ہے۔ اس احترام اور محبت کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے شعوری طور پر جسے درست سمجھا ساری زندگی اس پر قائم رہے اور اس پر قربان ہوگئے۔ دوسری یہ کہ پوری زندگی انہوں نے اپنی اولاد کے لئے رزق حلال کمانے کو مقدم سمجھا۔
فوج سے رخصت کئے گئے پھر انہوں نے دو تین کاروبار کئے یہ ان کے لئے گھاٹے کے سودے ثابت ہوئے۔ ملازمین اور کاروباری حصہ داروں نے انہیں تارے دیکھادیئے۔ بعدازاں دو تین ملازمتیں کیں پھر ایک دن سید مودودیؒ ان کے احوال سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے مولانا خان محمد ربانی مرحوم کے ذریعے پیغام بھیج کر لاہور بلوایا اور سعودی عرب بھجوادیا۔
برسہا برس تک سعودی عرب میں ملازمت کرتے رہے۔ اس عرصے میں 1965ء اور1971ء کی جنگوں میں بری فوج نے انہیں یاد کیا تو انہوں نے کسی تاخیر کے بغیر واپس وطن پہنچ کر احکامات کی بجاآوری اور فرائض کی ادائیگی پر توجہ دی۔
1983ء میں ا نہیں سعودی عرب سے بلواکر گلبدین حکمت یار کے ساتھ منسل کردیا گیا۔ سال 1990ء کی عیدالفطر کے دن وہ افغانستان میں خود پر ہونے والے ایک حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔
حکمت یار ان کی تنظیم اور جماعت اسلامی کوششوں سے تابوت میں بند جسد خاکی 2 دن کے وقفے بعد ملتان پہنچادیا گیا۔ والد بزرگوار کی وصیت کے مطابق مولانا خان محمد ربانی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
جسد خاکی کے ہمراہ افغانستان سے آنے والے گلبدین حکمت یار کے نمائندوں نے ایک خطیر رقم پیش کی جو ہم بھائیوں نے اپنی والدہ محترمہ کے مشورہ سے لینے سے انکار کردیا۔ اس انکار پر آج بھی بے انتہا دلی مسرت ہے۔
عیدالفطر کے دن کے لئے تحریر لکھنے سے قبل میں ہمت باندھ رہا تھا ہمت اس لئے کہ یہ عیدالفطر دو بھائیوں کی وفات کے بعد ہمارے خاندان (سیدہ عاشو بی بیؒ وعظ والی کی اولاد) کی پہلی عید ہے۔
چند ماہ قبل سفر حیات کی چالیس بیالیس بہاریں دیکھ چکنے والے چھوٹے بھائی سید طاہر محمود بخاری دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ 26 جنوری کو ہمارے بھیا ابو سید فاروق حسین ایڈووکیٹ دنیا سرائے سے رخصت ہوگئے۔
اپنی والدہ محترمہ سیدہ عاشو بی بیؒ وعظ والی کی زندگی تک میں عیدالفطر پر ان کی قدم بوسی کے لئے ضرور حاضری دیتا رہا۔ ان (والدہ محترمہ) کے سانحہ ارتحال کے بعد پچھلے بائیس برسوں سے عیدالفطر کا پورا دن اپنی لائبریری میں بیٹھ کر ان یادوں کو تازہ کرتاہوں جو سرمایہ حیات ہیں۔
اس عیدالفطر کے دن مجھے اپنی والدہ حضور کی تربت کو بوسہ دے کر فاتحہ و درود کی تلاوت کے بعد ان کی پسندیدہ ترین سورۃ کوثر کی تلاوت کرنی ہے۔ درست یا غلط ہمارے ہاں (اس میں ہمارا خاندان بھی شامل ہے) مرحوم یا مرحومین کے بعد آنے والی پہلی عیدالفطر کے دن مرحومین کے ورثا سے تعزیت کے لئے خونی رشتہ داروں اور قریبی احباب کی آمد ہوتی ہے۔
یہ رسم کیوں ہے اور کیوں ضروری ہے میں اس کی بحث میں کبھی نہیں پڑا بس ایک سماجی رسم ہے۔ دوسری رسموں کی طرح نبھ جائیں تو اچھا ہے۔
میرے دونوں مرحوم و مغفور بھائی دوسرے بہن بھائیوں کی طرح مجھے بھی عزیز جاں رہے۔ بڑے بھائی کو تو میں پچھلی چار دہائیوں سے بھیا ابو کہہ کر آداب بجالاتا ان کی قدم بوسی کرتا اوران سے دعائیں لیتا تھا
میرے لئے وہ ہمیشہ مضبوط ڈھال ثابت ہوئے۔ خاندان یا خاندان سے باہر جب بھی کسی نے ان سے میرے بارے میں کوئی کڑوی کسیلی بات کہی تو وہ مسکراکر کہتے تھے "میرے باوے حیدر جیسا دوسرا کوئی ہے تو لاکر دیکھائو"۔
ان کی اس محبت نے ہی مجھے بہت سارے فیصلے کرنے اور ان پر ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا۔ گزشتہ دو سوا دو مہینوں سے صبح و شام یہ سوچتا ہوں کہ اب اگر کوئی مشکل فیصلہ کرنا پڑا تو ہمت کون دے گا۔ کون کہے گا "باوا جی ڈٹے رہو میں تمہارے ساتھ ہوں جانے یا علیؑ"۔
ہم 14 بہن بھائی تھے اب 10 رہ گئے۔ تین بھائی اور ایک بہن منوں مٹی کی چادر اوڑھے قبرستانوں میں آرام کررہے ہیں۔ والدین بھی اپنا سفر حیات طے کرکے وقت مقررہ پر رخصت ہوئے۔
سات آٹھ سال کی عمر میں وفات پانے والی بہن کی یادیں جب بھی دستک دیتی ہیں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ وہ میری ملتان سے غیرحاضری کے برسوں میں وفات پاگئی تھی۔ والدہ حضورؒ بتایا کرتی تھیں کہ "جب تم گھر سے چلے گئے تو کوثر (میری بہن) صبح شام ایک ہی سوال پوچھتی تھی امی جان جاوید بھائی کب واپس آئے گا۔ وہ کیوں گھر سے چلا گیا اسے ہم یاد نہیں آتے"۔ امی حضورؒ کے بقول جب اس کے سامنے کھانا رکھا جاتا تو وہ بھیگی آنکھوں سے کہتی تھی "پتہ نہیں بھائی نے کھانا بھی کھایا ہے کہ نہیں"۔
اپنے پڑھنے والوں سے معذرت خواہ ہوں کہ عیدالفطر کے دن انہیں یہ روتا دھوتا کالم پڑھنا پڑا مگر کیا کیجئے مجھ سے یہی لکھا گیا۔ اللہ رب العزت ہمارے اور آپ کے دنیا سرائے سے رخصت ہوجانے والے پیاروں پر اپنا کرم فرمائے، آمین۔