حضرت خواجہ غلام فریدؒ 23 دسمبر 1845ء 1260ہجری خواجہ خدا بخش المعروف خواجہ محبوب الٰہی کے ہاں دریائے سندھ کے کنارے معروف (اپنے عہد کے) تجارتی قصبے چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے۔ والد بزرگوار نے ان کا نام خورشید عالم رکھا بعدازاں حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی نسبت سے خواجہ غلام فرید تجویز کیا گیا۔ یہی نسبتی نام زمانے میں تعارف بنا اور ہمیشہ رہے گا۔
تین سال کی عمر میں بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں نے خواجہ تاج محمود کی شاگردی میں دیا جہاں پہلا سبق "آکھ فرید الف" کے الفاظ انہوں نے ایسے ترنم سے دہرائے کہ سننے والوں پر وجد طاری ہوگیا۔ غالباً پہلے سبق کا اثر تھا کہ زندگی بھر یہی سمجھاتے رہے کہ "الف ایک ہی ہے"۔
شاعر ہفت زباں خواجہ غلام فرید سرائیکی، سندھی، فارسی، عربی، اردو، ہندی پر کامل عبور رکھتے تھے۔ طریقت کے سلسلے میں اپنے بڑے بھائی خواجہ فخر جہاں کی بیعت کی۔ فکری اعتبار سے شیخ محی الدین العربی اور حسین بن منصور حلاجؒ کی طرح وحدت الوجود کے سرخیلوں میں شمار ہوئے۔ البتہ اس مسئلہ پر عام فہموں میں گفتگو سے گریز کرتے۔
وہ اس ابدی سچائی سے آگاہ تھے کہ "دعویٰ عاشقی ہر کس و ناکس کو ہوتا ہے مگر اس راہ میں قربان ہونے کا حوصلہ ظرف مندوں کو نصیب"۔ انسان دوست اور آزادی پسند خواجہ، طبقاتی استحصال اور جبروستم کےساتھ ساتھ مذہبی و مسلکی منافرتوں سے ہمیشہ بیزار رہے۔ اسی لئے وہ مشورہ دیتے "انسان کو رب کا طالب ہونا چاہیے اور اپنے معاملات کو دیکھنا چاہئے "۔
تاریخی روایات کے مطابق خواجہ غلام فریدؒ کے آبائو اجداد سندھ سے ہجرت کرکے ملتان کی نواحی بستی منگلوٹ آئے، وہاں سے مظفر گڑھ اور پھر چاچڑاں شریف جابسے۔ ہجرتوں کے اس سلسلے میں دو باتیں بہت اہم ہیں اولاً یہ کہ مہینوں یا برسوں کے عارضی پڑائو کے عرصے میں دریا کناروں کی بستیوں میں رہے اور مستقل قیام خاندانی اور ابدی آرام کے لئے بھی دریا کنارے کے مقامات چاچڑاں شریف و کوٹ مٹھن منتخب ہوئے۔
خواجہ غلام فریدؒ نے اپنی نگری آپ بسانے کا مشورہ اس زمانے میں دیا جب دنیا داروں کے ساتھ ساتھ دینداروں کی بڑی تعداد بھی برطانوی راج کو انتظام الٰہی کا حصہ قرار دیتے ہوئے وفاداری کے مظاہروں میں ایک دوسرے پر سبت لے جاتی دکھائی دیتی تھی۔
بدیسی اقتدار کے شدید ناقد خواجہ غلام فریدؒ جب انگریزی تھانوں کو اکھاڑ پھینکنے کا مشورہ دیتے ہیں تو صاف دکھتا ہے وہ ایک اجلے زمین زادے، راست فکر انسان اور محب حریت و فکر ہیں۔ خواجہ سئیں کی شخصیت اور نسب پر کام کرنے والے بعض محققین نے ان کا شجرہ بلاد عرب کے قبیلوں بنوں تمیم اور بنوں عدی کی ذیلی شاخوں صدیقی اور فاروقی سے جوڑنے کی سعی کی اور بعض نے سارے رشتے قدیم وادی مہران (سندھ) سے جوڑے۔
لاریب نسب نامہ اہمیت رکھتا ہے لیکن کیا کوئی قادرالکلام، صاحب فکر، آزادی پسند، مدبر، عالم، فلسفی اور شاعر اس کا محتاج ہے کہ اگر نسب کسی بڑے عربی قبیلے سے نہ ملا تو اس کی بڑائی اور سچائی صدیوں کی دھول سے اٹ جائے گی؟
اس طالب علم کے خیال میں اصل حیثیت انسان کے برتائو، علم و فکر اور عادات و اطوار کی ہے۔ بہترین خصلتوں کا حامل آزادی پسند انسان اپنی صائب فکر کی بدولت اپنے نسب نامے کو ممتاز بناتا ہے اور کسی بڑے گھر کا بدخصلت کور مغز اجداد کے لئے گالی بن جاتا ہے۔
خورشید عالم خواجہ غلام فریدؒ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سلوک و طریقت کے اس مقام پر فائز ہیں جو جہل کے اندھیرے کو کاٹنے کے خواہشمندوں کے لئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔
خواجہ سئیں شاعر باکمال ہیں اور رہیں گے۔ ان کے نسب اور قومی شناخت کے حوالے سے پچھلی ایک صدی سے بعض حلقے قبضہ گیر رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ کاش ان قبضہ گیروں نے خواجہ کے کلام میں موجود درس حریت و فکر کااثر لیا ہوتا اور عملی طور پر شرف انسانی کے احترام اور سماجی مساوات کے قیام کے لئے کردار ادا کیا ہوتا۔
لوگ اگر سمجھ پائیں تو خواجہ سئیں صدی بھر سے چند برس اوپر یہ کہہ گئے کہ "جو خود کو تلاش کرلیتے ہیں وہ دربدری کے عذاب سے بچ جاتے ہیں"۔ خواجہ محبتوں کے امین، شرف انسانیت کے پرچارک، آزادی کے عاشق اور ایسے باکمال شاعر ہیں جنہوں نے پورے چار موسوں کو ایک مصرعے میں سمودیا۔
ان کی شاعری فقط شب ہجراں کا قصہ ہے نہ ذات کے درد کی تشہیر بلکہ انہوں نے اپنی شاعری سے وہی کام لیا جو ان کے مرتبے و مقام کے انسان کو زیبا تھا۔
ان کے ہاں (شاعری میں) جوحزن و ملال ہے وہ چار اور کے حالات، منافرتوں کے دھندوں اور کج بحثی پر ہے۔ اسی لئے وہ کہتے دکھائی دیتے ہیں"تیرے حسن کے ہزاروں شیدائی بدحواس و بدمست ہوکر مرگئے اور لاکھوں عاشق تیرے حسن کا صدقہ کرگئے"۔
"سب تیرے حسن کے کرشمے ہیں جس نے پیروجواں دونوں کو موت کے گھاٹ اتارا"۔ لکیر کے فقیر معاشرے میں صدائے حق بلند کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا "تقلید کے اندھے پن سے تحقیق ہی نجات دلاسکتی ہے، حق آگہی کا دروازہ تحقیق سے کھلتا ہے، سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا، سن کر سر دھننے سے بہتر تر ہے۔ ہاں مستی پرقدرت نہ رہے تو سولی مقدر بنتی ہے"۔ "نافرمانی اور کج کے داغ صاف کرنے کے لئے محبت کی شراب کی ضرورت ہے۔ عشق سے دل پاک ہوتا ہے"۔
خواجہ غلام فریدؒ ذات پات، رنگ و نسل اور مذہب و عقیدے کی بُکل مار کر جینے کو کارزیاں قرار دیتے ہوئے مخلوق سے محبت کو خالق سے آگہی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ہر کس و ناکس کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ محبت، ایثار قربانی کے اسباق کوبھلاکر نفرت و کدورت اور استحصال کو زندگی کیسے سمجھ لیتا ہے۔
ہمیں بلاتفریق مذہب اور رنگ و نسل تمام نوع انسانی سے محبت کرنی چاہیے اور اپنی خوبی سے دوسرے کو استفادہ اور دوسرے کی خوبی سے خود استفادہ کرنا ہوگا۔ اسی فکر کو مزید وضاحت کے ساتھ انہوں نے کچھ یوں بیان کیا "جب وہ ہمیں عرفان کی دولت سے مالامال فرمادے گا تو پھر ہم بلاتفریق سب کو اس فی، ض سے استفادہ کرنے دیں گے"۔
خواجہ سئیں ہمیشہ تلقین کرتے رہے کہ "انسان کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ علم کی شمع جلائے، جہل اور تعصب کے اندھیروں سے نجات حاصل کرے، بے نوائوں کی مدد کرے، اپنے خالق کونہ بھولے اورعامیانہ پن سے بچتا رہے"۔
خواجہ غلام فرید کا پیغام محبت اور درس حریت و فکر سرائیکی وسیب کے لوگوں کے لئے بالخصوص اور عالم انسانیت کے لئے بالعموم ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں کٹھ ملائیت، دھندے باز پیروں، بالادستی کے زعم میں گردن تک دھنسی اشرافیہ اپنے سوا کچھ دینا، سننا نہ چاہتی ہو، بہت ضروری ہوگیاہے کہ فکر فریدؒ کے پیغام کو عام کرکے جہل و تعب کے سوداگروں کا مقابلہ کیا جائے۔ خواجہ سئیں اسی راہ کے مسافر ہیں جس پر ان سے قبل منصور و سرمد، شیرازی و شاہ لطیف اپنی فکری استقامت کے ساتھ چلے اور اعلائے کلمتہ الحق کا فرض ادا کرگئے۔
مسائل و مشکلات، بالادستی کے پجاریوں کے لگائے زخموں سے چُور سرائیکی وسیب کے مظلوم زمین زادوں کے لئے پیغام فریدؒ یہی ہے کہ
"اپنی نگری خود بسائو"۔ یہ نگری کیسے بسانی ہے اور کیا کوئی بساکر یا پلیٹ میں رکھ کر پیش کردے گا، دونوں سوال بہت اہم ہیں۔ سرائیکی وسیب کے مظلوم زمین زادوں کو اپنی نگری آپ بسانی ہے تو پھر انہیں ذات پات، رنگ و نسل، مذہب و عقیدے کے ان تعصبات سے نجات حاصل کرنا ہوگی جن کا دھندہ عروج پر پہنچانے والوں کی سوچ یہی ہے کہ زمین زادوں کی محنت کے پھل سے ان کے خاندان پلتے رہیں۔
خواجہ غلام فریدؒ کے ہاں (فکر اور کلام میں) انسان کو فضیلت حاصل ہے۔ اندھی تقلید کے بجائے تحقیق کے چراغ جلانے کی بات کرنے والے خواجہ سئیں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کی فکر کو خاصے کی چیز اور کلام کو گویوں کے لئے سمجھ لیا جائے۔
خواجہ غلام فریدؒ اپنی فکر، دانش، صائب رائے، شرف انسانیت سے محبت، تحقیق کے حق کے گواہ کے طور پر ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی فکر وکلام ہر دو سے استفادہ کرکے وسیب زادے دوسو سال سے گلے کا طوق بنی غلامی سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ البتہ یہ بہت ضروری ہے کہ بطور خاص یہ سمجھ لیا جائے کہ خواجہ غلام فریدؒ حقیقی معنوں میں خورشیدِ عالم ہیں۔ ان کی فکر اور کلام کو وسیلہ رزق بنائے لوگوں سے شکوہ کرنے کے بجائے وسیب زادوں کو یہ دیکھنا اور سوچنا ہوگا کہ خواجہ سئیں نے جو درس اخوت، آزادی، وقار، ایثار دیا ہم نے اسے پس پشت کیوں ڈال دیا گیا
لاریب اگر آج بھی ان کی فکر کو مشعل راہ بنالیاجائے تو کٹھ ملائیت، دھندے باز پیروں، میروں کے لشکر اوربالادستوں کے ساجھے داروں سے نجات حاصل کرکے ویسی نگری بسائی جاسکتی ہے جس کی تلقین حضرت خورشید عالم خواجہ غلام فریدؒ نے کی۔
(نوٹ: اس کالم کے لئے دیوان فریدؒ کے نسخہ جات از مولانا نوراحمد فریدی، خواجہ طاہر محمود کوریجہ، دیوان فرید بالتحقیق از مجاہد جتوئی اور مقدمہ دیوان فرید از ظہور دھریجہ سے استفادہ کیا گیا)