Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Siyasi Tasadum Ki Taraf Barhte Mamlat

Siyasi Tasadum Ki Taraf Barhte Mamlat

پنجاب، بلوچستان اور سندھ سمیت وفاقی دارالحکومت سے سینیٹ ارکان کا انتخاب مکمل ہوگیا۔ خیبر پختونخوا میں عدالتی حکم کے باوجود مخصوص نشستوں پر کامیاب ارکان سے حلف نہ لینے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلی سے سینیٹرز کے انتخابی عمل کو ملتوی کردیا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ہماری مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو ریوڑیوں کی طرح بانٹ دی گئیں۔ غیرقانونی طور پر رکن اسمبلی بننے والوں کو حلف نہیں لینے دیں گے۔

انہوں نے الیکشن کمیشن پر بار بار آئین توڑنے کا الزام بھی لگایا۔ علی امین گنڈاپور نے خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور احتجاج کا بھی اعلان کیا۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود مخصوص نشستوں پر کامیاب قرار پانے والے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کو حلف اٹھانے سے روکنے کے لئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہونے دیا جس پر تنازع پیدا ہوا۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب، سندھ اسمبلیوں کی مختصوص نشستوں کے متبادل ارکان حلف اٹھاچکے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو پولیٹیکل پارٹی اٹکٹ 2017ء کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں کیونکہ اس نے بطور جماعت 2024ء کے الیکشن میں حصہ لیا نہ اس کا کوئی امیدوار رکن اسمبلی منتخب ہوا۔

ادھر گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد رکن قومی اسمبلی عمر ایوب کو اپوزیشن لیڈر مقر کردیا مگر اس کے ساتھ ہی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 88 ارکان قومی اسمبلی کو آزاد ارکان قومی اسمبلی قرار دے دیا گیا۔

پی ٹی آئی کی اتحادی سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں پر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ بیرسٹر گوہر علی خان نے 88 ارکان کو آزاد ارکان قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن ملتوی ہونے کے بعد یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا سینیٹ میں ایک صوبے کی پچاس فیصد کم نمائندگی کے باوجود چیئرمین و وائس چیئرمین سینیٹ کا انتخاب عمل میں آسکے گا؟

اس سوال پر گو کہ قانونی و آئینی ماہرین کی آراء منقسم ہیں مگر یہ امر اپنی جگہ ہے کہ معاملہ اب عدالتوں میں جائے گا یہ اطلاع بھی ہے کہ منگل کی شب خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اسلام آباد سے آئے ہوئے دو قانون دانوں سے سینیٹ چیئرمین، وائس چیئرمین کا الیکشن ملتوی کرانے کے لئے صلاح مشورہ بھی کیا۔

وزیراعلیٰ کا موقف ہے کہ اگر خیبر پختنواہ میں سینیٹ کے الیکشن ہوجاتے تو اس وقت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کا پارلیمانی گروپ سب سے بڑا پارلیمانی گروپ ہوتا ہم ایک وسیع اتحاد تشکیل دے کر چیئرمین چیئرمین وائس چیئرمین کا الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آجاتے نیز یہ کہ ہمارا راستہ روکنے کے لئے سازشوں کے جال بچھائے گئے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ہم کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

ان حالات میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جمہوری نظام کو ایک دریا کے پار اترنے کے بعد ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ صورتحال آئینی بحران کی طرف جاتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے تو دوسری طرف سیاسی عدم ا ستحکام کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ قانونی نکات پر جاری اس بحث اورسینیٹ الیکشن کے نتائج کے بیچوں بیچ تحریک انصاف کی قیادت کی کوششوں سے پی ٹی آئی سمیت پانچ جماعتی گرینڈ الائنس تشکیل پاگیا ہے۔ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، سنی اتحاد کونسل، بی این پی مینگل اور مجلس وحدت مسلمین پر مشتمل گرینڈ الائنس نے 13 نکات پر اتفاق رائے کرتے ہوئے ملک میں فوری الیکشن کرانے کا مطالبہ کردیا ہے۔

اس اتحاد کے سربراہ پی ٹی آئی کی حمایت سے وزیراعظم کے منصب کے لئے امیدوار بننے والے محمود خان اچکزئی ہوں گے۔ گزشتہ سے پیوستہ شب اس اتحاد کے رہنمائوں میں الائنس میں شمولیت کے لئے مولانا فضل الرحمن کو دعوت دینے پر بھی مشاورت ہوئی۔

نوتشکیل شدہ اتحاد کا پہلا احتجاجی جلسہ 14 اپریل کو کوئٹہ میں ہوگا۔ اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام آنے کے آثار دور دور تک نہیں گو حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے لیکن حکومت گرانے کے جوش میں مبتلا جماعتوں میں جس طرح یکسوئی بڑھ رہی ہے اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح یہ بات بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ میڈیا وار میں حکمران اتحاد پی ٹی آئی سے ہزار کلو میٹر پیچھے ہے ایسے میں اگر یہ سوال دریافت کیا جاتا ہے کہ میڈیا وار میں پی ٹی آئی کا مقابلہ نہ کرپانے والی جماعتیں حکومت میں ہونے کے باوجود کسی ایسی احتجاجی تحریک کو کیسے روک پائیں گی جسے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ایک حصے کی تائید کا تاثر موجود ہو تو اس کا برا منانے کی بجائے سنجیدگی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ امر دوچند ہے کہ موجودہ نظام بڑے سیاسی تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اس تصادم سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو مذاکرات کی میز پر کیسے لاپائے گی یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کے جواب میں مستقبل کا منظرنامہ محفوظ ہے۔