ملتان اور ملتانیوں کے لئے آج (27) اپریل ایک تاریخ ساز دن ہے۔ آج شام ملتان میں سرائیکی وسیب کی ایک بڑی اور موثر تنظیم "سوجھل دھرتی واس" کے زیراہتمام چوتھی سوجھل ادبی و ثقافتی کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے۔ سوجھل دھرتی واس، بنیادی طور پر علم و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لئے قائم کی گئی ہمارے مرحوم دوست صوفی تاج محمد گوپانگ ایڈووکیٹ اس تنظیم کے بانیوں کے قافلہ سالار تھے۔
مرحوم صوفی تاج محمد گوپانگ ایڈووکیٹ وسیع المطالعہ صاحب طرز ادیب، روشن فکر دانشور اور سرائیکی وسیب کے قومی حقوق و صوبہ کے قیام کی جدوجہد میں آخری سانس تک عملی طور پر شریک رہنے والے قوم پرستوں میں سے تھے۔ رواں صدی کے ابتدائی برسوں میں ارشاد احمد امین (حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے پچھلے سال سفر حیات طے کرکے رخصت ہوگئے،) کی تحریک پر ملتان کے سندباد ہوٹل میں بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کی صدارت (تاج محمد لنگاہ بھی بھرپور زندگی اور پرعزم جدوجہد کا سفر مکمل کرکے دنیا سرائے سے رخصت ہوچکے) میں منعقد ہونے والے 40 ادبی سیاسی، ثقافتی اور سماجی تنظیموں کے اجلاس میں مشاورت سے قائم ہونے والی "سرائیکی قومی رابطہ کونسل" کے سربراہ منتخب ہوئے یہ تحریر نویس کونسل کا سیکرٹری جنرل اور ارشاد احمد امین رابطہ سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ مرحوم کئی برس تک پاکستان سرائیکی پارٹی کے چیف آرگنائزر بھی رہے۔
سرائیکی قومی رابطہ کونسل کا قیام اور اٹھان دونوں شاندار تھے اس اولین سرائیکی اتحاد کا وسیب بھر میں خیرمقدم ہوا۔ بدقسمتی سے بعض دوستوں کی تنگ نظری اور کونسل میں عہدے نہ ملنے پر ان کی برہمی اور سازشیں اس اتحاد کے کریا کرم کا سبب ٹھہریں۔ خیر ہم اصل موضوع پر آتے ہیں بالائی سطور یادوں کی دستک کے ساتھ رقم ہوگئیں بہر طور یہ وسیب کی سیاسی جدوجہد اور تاریخ کا حصہ ہیں۔
مرحوم صوفی تاج محمد گوپانگ اور سئیں عاشق بزدار سرائیکی لوک سانجھ کے بانیوں میں شامل تھے۔ مجھ طالب علم سمیت آج ہماری نسل کے جتنے بھی دوست مختلف تنظیموں یا انفرادی طور پر سرائیکی قومی شعور ا ور صوبے کے قیام کی جدوجہد میں عملی طور پر شریک ہیں یا اس جدوجہد کی اپنی بساط مطابق تائید و تعاون کرتے ہیں ان کی اکثریت اپنی شعوری رہنمائی اور تربیت کے حوالے سے سرائیکی لوک سانجھ کے محبوں اور متاثرین میں شامل ہیں۔
جنرل ضیاء کے عہد ستم کے ماہ و سال میں سرائیکی لوک سانجھ نے ادبی ثقافتی کانفرنسوں کے ذریعے سرائیکی قومی شعور اور دیگر معاملات میں وسیب زادوں کی جس طور رہنمائی کی یہ سرائیکی وسیب کی تاریخ کا قابل فخر حصہ ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل استاد فدا حسین گاڈی مرحوم، مرید حسین خان راز جتوئی مرحوم، منیر دھریجہ مرحوم، سئیں مظہر عارف، مقبول انیس ایڈووکیٹ مرحوم، عزیز نیاز ایڈووکیٹ مرحوم، حسن معاویہ بلوچ ایڈووکیٹ مرحوم، سید حسن رضا المعروف رضو شاہ بخاری مرحوم، بیرسٹر تاج محمد لنگاہ مرحوم، لالہ عمر علی خان بلوچ مرحوم، اسد لنگاہ مرحوم حمید اصغر شاہین مرحوم، کامریڈ منظور بوہڑ و دیگر مرحوم و زندہ و تابندہ دوستوں کی جدوجہد کا اعتراف ازبس ضروری ہے۔ آج وسیب بھر میں سرائیکی قومی تحریک کی جو رونقیں ہیں ان کے پیچھے بالائی سطور میں درج ان دوستوں اور بزرگوں کی پرعزم جدوجہد ہے۔
اس وقت بھی درجنوں سیاسی، ادبی، ثقافتی اور سماجی خدمت میں مصروف تنظیمیں فعال ہیں اور اپنے اپنے حصے کا کام کررہی ہیں۔
سوجھل دھرتی واس کے قیام سال 2016ء سے اب تک کے پچھلے 8 برسوں کے دوران اس تنظیم کے دوستوں نے علمی و ادبی ثقافتی حوالوں سے جو کام کیا اس سے انکار ممکن نہیں۔ وسیب میں سیاسی یکجہتی کے لئے بھی سوجھل دھرتی واس کی کوششیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
اسی طرح گزشتہ سیلاب سے سرائیکی وسیب میں جو تباہ کاریاں ہوئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنے، سیلاب زدگان کی دامے درمے سخنے مدد اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو و بحالی کے پروگرام کو حقیقی صورت دینے میں سوجھل دھرتی واس کے دوستوں نے انجینئر شاہنواز خان مشوری اور عثمان کریم بھٹہ ایڈووکیٹ کی قیادت میں جو گرانقدر خدمات سرانجام دیں ان پر پورے وسیب کو فخر ہے۔
سوجھل دھرتی واس کے دوستوں نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ علم و ادب اور ثقافت یا سماج سدھاری کے جذبہ سے میدان عمل میں اترنے والے سیاسی و عصری شعور سے بے بہرہ نہیں ہوتے۔
ہمارے بعض دوست جو ادبی ثقافتی تنظیموں پر پھبتیاں کستے نہیں تھکتے اس امر کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ تیسرے مارشل لاء کے بھیانک ماہ و سال میں سرائیکی زبان، علم و ادب اور ثقافت کے چراغ جلا رکھنے والی سرائیکی لوک سانجھ بھی ایک ادبی ثقافتی تنظیم ہی تھی مگر اس نے سرائیکی وسیب کی نئی نسل میں قومی شعور کی بیداری اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کے جذبوں کو پروان چڑھایا۔
علم و ادب اور ثقافت سیاسی عمل کے دشمن ہرگز نہیں بلکہ ان شعبوں سے سیاسی عمل کو نہ صرف تربیت یافتہ کارکن ملتے ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ قوم پرست تحریکوں کے لئے یہ علمی ادبی اور ثقافتی تنظیمیں نرسریوں کا درجہ رکھتی ہیں۔
آپ ہمسایہ سندھی، بلوچ اور پشتون قوم پرست تنظیموں کے ساتھ سیاسی و فکری تعاون کرنے والی ان اقوام کی ادبی ثقافتی علمی تنظیموں کے کردار کو دیکھ لیجئے دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ یہ مرض ہمارے ہاں ہی ہے کہ کچھ لوگ دہن بگاڑ کر فرماتے ہیں"ڈھول ڈھپے، جھمر اور مشاعروں کا سیاست سے کیا لینا دینا"حالانکہ سیاسی شعور کے ا رتقائی سفر میں ان میلوں ٹھیلوں۔ جھمر اور ادبی ثقافتی کانفرنسوں کا بڑا اور بنیادی کردار تھا ہے اور رہے گا۔
میں ایک وسیب زادے اور طالب علم کی حیثیت سے سوجھل دھرتی واس کی علمی و ادبی ثقافتی اور سماجی خدمات کے ساتھ وسیب میں سیاسی یکجہتی کے لئے اس کے عملی کام کا معترف تھا اور ہوں بھی۔ ہم کسی شخص یا تنظیم سے فکری بنیادوں پر اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ اختلاف نفرت و تعصب میں لتھڑا نہیں ہونا چاہیے۔
سوجھل دھرتی واس نے پچھلے 8 برسوں کے دوران سرائیکی وسیب کے دونوں مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے جو جدوجہد کی کیا اس سے صرف اس لئے انکار کردیا جائے کہ اس تنظیم کے بعض دوست ہماری پسندیدہ سیاسی جماعت کو ہی اول و آخر نہیں سمجھتے؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
مجھے اس امر کا یقین ہے کہ کچھ احباب اس کالم کی اشاعت کے بعد جی بھر کے گالیاں دیں گے۔ انہوں نے دو برس قبل اس وقت بھی بازاری بلکہ عامیانہ زبان استعمال کی تھی جب انہی سطور میں قوم پرستوں ادبی ثقافتی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان یکجہتی کے لئے سلسلہ وار کالموں میں دوستوں کے خطوط اور تجاویز شائع کی تھیں۔
بہرحال سوجھل دھرتی واس کی چوتھی ادبی ثقافتی کانفرنس کے انعقاد اور بالخصوص اس بار کانفرنس کو ملتان میں منعقد کرنے پر سوجھل دھرتی واس کے دوستوں کا بہت شکریہ۔
عزیزان محمود مہے اور ملک منصور مہے بھی لائق تحسین ہیں جنہوں نے کانفرنس کے انعقاد کے لئے ہرممکن سہولت فراہم کی ہے۔ ایک طالب علم اور وسیب زادے کی حیثیت سے مجھے یقین ہے کہ آج کی سوجھل دھرتی واس کانفرنس سرائیکی قومی تحریک کے نئے عہد کی بنیاد رکھے گی۔ ایک بار پھر وسیع تر سرائیکی قومی اتحاد کے قیام کےلئے عملی اقدامات کا فیصلہ ہوگا۔
ملکی سیاست میں سرگرم عمل سیاسی جماعتوں کے دوستوں کو سمجھنا ہوگا کہ ادبی ثقافتی کانفرنسیں سیاسی شعور کی بیداری اور تحریکوں کی فعالیت میں کردار ادا کرتی ہیں ان کے انعقاد کا مقصد کسی جماعت کی خدمات سے انکار نہیں ہوتا البتہ یہ ضرور ہے کہ جو جماعت سرائیکی قوم اور صوبے کے حق سے ہی انکاری ہو اس سے کھلی برأت کا اظہار قومی فریضہ ہے۔