تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے اس طالب کو ہم عصروں اور اہل دانش و سیاست کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ جمہوریت ہمارے مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ لاریب جمہوریت کے نام پر اس ملک کے لوگوں کے ساتھ جو گھٹالے ہوئے ان کی وجہ سے مایوسی پھلی پھیلی اور بڑھ رہی ہے لیکن کیا سارے مسائل لُولے لنگڑے جمہوری ادوار کے پیدا کردہ ہیں؟
چار فوجی ادوار میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگ گئی تھیں؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
آئیں پاکستانی سیاست کی تاریخ کے کچھ اوراق پلٹتے ہیں۔ ماضی قریب کے چوتھے آمر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو غربت کی شرح 32فیصد تھی۔ ان کے دور میں 10 سے 12 فیصد غربت میں اضافہ ہوا، احتساب کی رام لیلی سناتے ہوئے وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ مالی بدحالی کی جو داستان وہ سناتے تھے اس پر سپریم کورٹ کے اس بنچ نے مہر ثبت کردی جس نے ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ سنایا اور عالی جناب جنرل (ر) پرویز مشرف کو دستور پاکستان میں شخصی ترامیم کا حق عطا فرمادیا۔
لاٹھی، تلوار اور بندوق تھمانے سے پہلے نتائج مدنظر نہ رکھنے والوں کو بعد میں منہ بسورنے کی بجائے منہ پیٹنا چاہیے وہ بھی دونوں ہاتھوں سے۔
مکرر عرض ہے خاکسار ان دوستوں سے متفق نہیں جو کسی ایڈونچر یا عاجلانہ اقدام کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں۔ معاف کیجئے گا مارشل لاء یا مشرف جیسی جرنیلی جمہوریت مسئلہ کا حل ہے اور نہ ہی ٹیکنوکریٹ مخلوق کی حکومت، بہت تجربے ہوچکے۔ اس بدقسمت ملک اور 25کروڑ لوگوں نے بہت عذاب بھگت لئے۔
ہمیں یعنی ہم سب کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی کارکنان کا کلچر ختم ہونے سے مسائل پیدا ہوئے فوجی و شخصی حکومتیں درباریوں کی پنیریاں لگاتی ہیں۔ ان نرسریوں سے اُگی قیادتوں نے بہت عذاب توڑے پاکستان سیاست میں کرپشن کا دروازہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے کھولا۔ ان کے صاحبزادگان بالخصوص کیپٹن (ر) گوہر ایوب خان پر انگلیاں اٹھیں۔ اپنے لخت جگر کے چونچلوں کی پردہ پوشی نے ایوب خان کو سرمایہ دار طبقے کی لوٹ کھسوٹ کی طرف سے آنکھیں بند رکھنے پر مجبور کیا۔
جنرل آغا محمد یحییٰ خان میں بشری کمزوریاں بہت تھیں۔ اقتدار کی طوالت کے لئے انہوں نے خان عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کو 1970ء کے عام انتخابات میں وسائل فراہم کئے لیکن دونوں جماعتوں کا جو حشر پاکستان میں ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
16دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوگیا۔ رجعت پسند گروہ بالخصوص جماعت اسلامی آج تک اس کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھہراتے ہیں مگر اس سوال سے سب آنکھیں چراتے ہیں کہ خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے کیا سلوک کیا؟
جانے دیجئے، یہ ایک الگ موضوع ہے کسی دن تفصیل کے ساتھ تصویر کے دونوں رخ پڑھنے والوں اور بالخصوص مطالعہ پاکستان زدہ نسل کے سامنے رکھوں گا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے میں اور آپ ہی نہیں کوئی بھی شخص یہاں تک کہ ان کے خون کے پیاسے اور پھانسی پر حلوے تقسیم کرنے والے بھی ان پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام عائد اور ثابت نہیں کرسکے۔
جنرل ضیاء الحق کو شوق چرایا تھا ان پر 70 کلفٹن کی تعمیرومرمت سرکاری خزانہ سے کروانے کا الزام لگانے کا مگر ریکارڈ سے ثابت ہوا کہ بھٹو صاحب نے 47ہزار روپے کا چیک دیا تھا۔
40ہزار مرمت پر اٹھنے والے اخراجات کی مد میں اور 7 ہزار روپے کام کرنے والی لیبر (محنت کشوں) میں تقسیم کرنے کے لئے وفاقی وزارت کے جس افسر نے یہ ریکارڈ پیش کیا اور اخبارات کو خبر جاری کی اسے جان بچاکر ملک سے بھاگنا پڑا۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ 5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء نے سیاسی، فکری اور مالیاتی کرپشن کی آبیاری کی۔ سیاست پر پابندی تھی۔ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر دانش کی جگالی کرنے والوں نے پوری تاریخ بھی تبدیل کرکے رکھ دی۔
جنرل ضیاء نے باقاعدہ حکم دیا کہ فوج میں مذہبی خدمات انجام دینے والوں کی بھرتی کے وقت تسلی کرلی جائے کہ کوئی شیعہ اور بریلوی بھرتی نہ ہونے پائے۔
جن مذہبی اور سیاسی قائدین نے ذوالفقار علی بھٹو اور ترقی پسند نظریات کے خلاف اپنی خدمات پیش کیں فوجی حکومت نے ان سب کی "خدمت" فرمائی۔ اسی دوران افغانستان میں انقلاب آیا۔ امریکہ اور مغربی دنیا پاکستان میں جنرل ضیاء کی صورت میں پہلے ہی انتظامات کرچکے تھے۔ سو پاکستان ایک نام نہاد جہادی جنگ کے لئے فرنٹ لائن سٹیٹ بن گیا۔
بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ کیا کسی کو یاد ہے 1984ء میں ایک امریکی جریدے نے دنیا کے 9 امیر ترین جرنیلوں پر سٹوی شائع کی تھی تو 9 میں سے 4 جرنیلوں کا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے تھا۔ ان 9 امیر جرنیلوں میں پہلے نمبر پر جنرل فضل حق اور دوسرے پر جنرل اختر عبدالرحمن تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں ایسے ایسے لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی ہوئے جن میں سے اکثر کے والد کے پاس 5 جولائی 1977ء سے قبل سائیکل بھی نہیں تھی۔
اس عہد ستم میں سب نے ہاتھ رنگے اور انگنت طریقے سے مال بنانے کے سب گر آزمائے گئے۔ بہت سے فقیر، مذہبی رہنما کروڑ پتی ہوگئے۔ یہی وہ دور تھا جس میں سیاسی کارکنوں کی جگہ گلیاں نالیاں بنانے والے ٹھیکیداروں نے لے لی۔
17 اگست 1988ء سے 12اکتوبر 1999ء کے دوران دوبار پیپلزپارٹی اور دوبار نوازشریف اقتدار میں آئے۔ ایک بار اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر اور دوسری بار مسلم لیگ (ن) کے نام پر۔ خود یہ اسلامی جمہوری اتحاد کیسے بنا؟ ایک باضابطہ کور کمانڈر اور دوسرا آئی ایس آئی کا سربراہ۔ دو حاضر سروس جرنیل اپنے چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کے حکم پر پیپلزپارٹی مخالف جماعتوں کو اکٹھا کرتے اور دولت تقسیم کرتے رہے۔
آئی جے آئی کی تشکیل اور سرمائے کی تقسیم کے حوالے سے اصغر خان کیس اور اس کا فیصلہ پڑھ لیجئے چودہ نہیں اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
بڑے بڑے پارسائوں اور باغیوں نے ملٹری اشرافیہ سے مال وصول کیا۔ 1988ء سے 1999ء کے درمیان بنی چار سول حکومتیں آسانی کے لئے جمہوری حکومتیں کہہ لیں، بدعنوانیوں کے الزامات پر توڑی گئیں۔
پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ نے اپنے دور ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف جی بھر کے مقدمات بنائے۔ یہاں تک ہوا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج ملک عبدالقیوم سے کہا "بے نظیر بھٹو کو کم از کم سات سال قید کی سزا سنائو تاکہ وہ نااہل ہوجائیں"۔ وہ وزیراعلیٰ شہباز شریف تھے۔
نیلے آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شہباز شریف نے کراچی جیل میں آصف علی زرداری سے معافی مانگی۔ شریف خاندان جلا وطنی خرید کر ملک سے نکلا اور جدہ پہنچ گیا۔
جدہ کے سرور محل میں محترمہ بینظیر بھٹو ان سے ملاقات کے لئے گئیں تو میاں نوازشریف کے والد محترم میاں محمد شریف نے بینظیر بھٹو کے سر پر چادر ڈالتے ہوئے دست شفقت رکھا اور کہا "بیٹی! اپنے بھائیوں کو معاف کردو"۔ میاں نوازشریف بولے "آپ کے خلاف مقدمات ہم نے فوج کے دبائو پر بنائے تھے فوج نے ہمیں استعمال کیا"۔
یہی بات میاں نوازشریف نے سہیل وڑائچ کو دیئے گئے انٹرویو میں بھی کہی جو ان کی کتاب "غدار کون؟" میں من و عن موجود ہے۔
نوازشریف نے بینظیر بھٹو سے جلاوطنی کے دوران میثاق جمہوریت کیا۔ پنجاب کا طاقتور میڈیا ہمیشہ اس بات کو چھپاتا رہا کہ اس میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا کہ پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں کو نکال دیا جائے گا مگر پی سی او جج افتخار چوہدری کے معاملے پر مسلم لیگ ن نے الٹی زقند بھری۔
معاف کیجئے گا کہ کرپشن اور د وسرے مسائل کا حل مارشل لاء یا ان ہائوس تبدیلی یا متبادل نظام میں نہیں ہوتا۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ آرمی چیف، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہ سپریم کورٹ اور چاروں ہائیکورٹس کے چیفس اور ججز، ایف بی آر۔ ایف آئی اے اور آئی بی کے سربراہوں کی تقرری کی منظوری پارلیمان دے۔
اسی طرح نیب کے سربراہ کی تقرری بھی پارلیمنٹ کرے اور آئین اسے اختیار دے کہ وہ اور اس کا ادارہ ملک کے ہر ادارے اور شخص کے خلاف کرپشن کے ٹھوس شواہد کی موجودگی میں کارروائی کرسکے۔
جب تک ایک آزاد اور خودمختارنیب کا ادارہ نہیں ہوگا احتساب کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ نیب کو سب کے احتساب کا قانونی حق ہو اور اس احتساب کو آئینی تحفظ بھی ملے۔ اس کے بغیر اصلاح احوال کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔
مجھے معاف کیجے گا ڈاکوئوں سے چوروں کا احتساب کروانے کی باتیں جاگتی آنکھ کے سپنوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جمہوریت اور صرف جمہوریت ہی اس ملک کا مستقبل ہے، کسی اورقسم کا شوق پالنے والے اس ملک اور عوام کاناقابل تلافی نقصان کریں گے۔