Friday, 20 September 2024
  1.  Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Aalmi Rehnuma Banne Ki Koshish

Aalmi Rehnuma Banne Ki Koshish

ایسے حالات میں جب چین کے بڑھتے رسوخ سے بھارت کو خطے میں سنجیدہ نوعیت کے چیلنج درپیش ہیں نریندرامودی نے چیلنجز بالائے طاق رکھتے ہوئے عالمی رہنما بننے کی کوششیں شروع کردی ہیں جس میں کامیابی کے امکانات بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ بظاہر ناکامی کا امکان قوی تر لگتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اپنے ملک کو مسائل کے گرداب میں پھنسا چھوڑ کر دیگر ممالک میں ثالثی کرانے کی روش پر سفر شروع کردیا جائے۔

اِس حکمتِ عملی پر تجزیہ کار حیران ہیں اور اندرونِ ملک زوال پذیر مقبولیت کو سنبھالا دینے کی کوشش کہتے ہیں تو کچھ غیر جانبدارانہ پالیسی کو دوبارہ اپنانے کے تناظر میں دیکھتے ہیں جس کے تحت بھارت سب سے بنا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چین کی سعودی عرب اور ایران میں تعلقات بحال کرانے کی سنجیدہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں جس سے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے جاری کوششوں کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ خطے میں چین کو ایک قابلِ اعتماد شراکت دار کی حثیت سے قبول کیے جانے کا تاثر گہرا ہوا، کیونکہ بھارت خود کو چین کا مدِ مقابل تصور کرتا ہے اسی لیے شاید مودی بھی عالمی سطح پر کوئی ایسی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو نہ صرف بھارت کاعالمی تشخص بہتر بنانے کا باعث بنے بلکہ دنیا مودی کو ایک عالمی رہنما کے طورپر بھی قبول کرلے۔

سابقہ حکمرانوں کی طرح مودی بھی بھارت کا غیر جانبدار تشخص بحال کرنا چاہتے ہیں۔ چین کے ساتھ سرحدی و تجارتی مسائل کے باوجود چین سمیت عالمی طاقتوں سے ہموار اور خوشگوار تعلقات رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، لیکن اب ماضی کی طرح بھارت کی سب سے بنا کر رکھنے کی پالیسی کا کارگر نہیں رہی وہ مودی کی حکمرانی میں جس راہ پر چل نکلا ہے اب واپسی کافی مشکل ہوگئی ہے۔ اگر روس اور امریکہ سے تعلقات میں توازن رکھنا ہے تو اُسے امریکی قیادت میں ہونے والے جاپان اور آسڑیلیا سے ایسے معاہدوں کو خیر باد کہنا پڑے گا جن سے بھارت پر روس مخالف اتحادکا حصہ ہونے کی چھاپ گہری ہو ئی ہے۔ مگر خطے میں چین کا متبادل ہونے کا دعویدار یہ ملک ایسے کسی اقدام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اِس لیے مزید عرصہ بیک وقت روس اور امریکہ کا اعتماد حاصل رکھنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔

عالمی پابندیوں کی وجہ سے فی الحال تو روس نے بھارتی کے امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف جھکاؤ کو نظر انداز کر رکھا ہے لیکن جلد بدیر فیصلہ کُن نوبت آسکتی ہے۔ روس اور چین کی فروغ پذیر شراکت داری کے تناظر میں زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکی کیمپ میں خود کو زیادہ آسودہ محسوس کرے اِس بنا پر روس سے موجود قُربت سے دستکش ہونا بعیدازقیاس نہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف غیر جانبدارنہ تشخص بحال کرنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں بلکہ عالمی رہنما بننے کی بھاگ دوڑ بھی بے ثمر ہونایقینی ہے۔

روسی صدر پوٹن سے گلے ملتے ہوئے گرم جوشی دکھانے پرمودی سے امریکہ اور اُس کے مغربی حلیف ناخوش ہیں اور انھوں نے اِس حرکت پر ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ شاید اسی لیے چند ہفتے بعد ہی مودی نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کرانے کی خواہش ظاہر کردی اور پھر بڑے طمطراق سے صدر زیلنسکی سے بھی گلے جا ملے مگر اِس ملاقات کو جنگ بندی کرانے کے طور پر تسلیم کرنا مشکل جبکہ امریکی اعتماد بحال رکھنے کی کاوش کہہ سکتے ہیں۔

دراصل کئی دہائیوں سے بھارت کی پالیسی ہے کہ سب سے بنا کر رکھنے کی کوشش کی جائے جہاں سے جوفائدہ ملتا ہے حاصل کرنے میں دیرنہ کی جائے لیکن نفع کو ترجیح دیتا ہے۔ روس اور یوکرین سے تعلقات کو دستیاب اعدادو شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو روس اور بھارت کی باہمی تجارت دس ارب ڈالر کے قریب ہے جسے 2025 تک دونوں ممالک تیس ارب ڈالرتک لے جانا چاہتے ہیں۔ دونوں باہمی سرمایہ کاری کا حجم پچاس ارب ڈالر کرنے کے آرزو مند ہیں۔ نیز بھارت کو سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرنے والا ملک آج بھی روس ہے اور وہ اپنی ساٹھ فیصد دفاعی ضروریات روس سے پوری کرتا ہے۔

علاوہ ازیں روس اپنے دیرینہ حیلف بھارت کو تیل فراہم کرنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے لیکن یوکرین اور بھارت کا تجارتی حجم محض چار ارب ڈالر ہے اور یوکرین سے محدود پیمانے پر بھارت دفاعی سازو سامان جیسے گولہ بارو، انجن اور ٹیکنالوجی لیتا ہے۔ روس کے مقابلے میں یہ تجارتی شراکت داری نہایت مایوس کُن ہے۔ بھارت کے پچاس شراکت داروں میں سے ایک یوکرین ہے۔ ہر حوالہ سے روس کو یوکرین پر فوقیت حاصل ہے لیکن نئے حالات میں امریکہ اب بھارت کے لیے بہت اہم ہے اِس لیے اُسے مطمئن رکھنا بھارت کی مجبوری ہے۔

گزشتہ ماہ 23 اگست کومودی نے یوکرین کا مختصر دورہ کیا جس کا دورانیہ محض 9 گھنٹے رہا۔ یوکرین کے آزاد ہونے کے بعد یہ کسی بھی بھارتی وزیرِ اعظم کا پہلا دورہ ہے۔ اِس دوران دونوں ممالک میں ادویات، زراعت، انسانی امداد اور ثقافت جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے چار معاہدے ہوئے مگر نئے معاہدوں کے باوجود بھارت و روس جیسے تعلقات کی منزل نہیں مل سکتی۔ پوٹن کو گلے لگانے کے چند ہفتے بعد ہی یوکرین کے صدر کو گلے لگا کر مودی نے دراصل امریکہ اور مغربی ممالک کے تحفظات دور کیے ہیں جس میں وہ کِس حد تک کامیاب رہے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے جلد بازی کی بجائے انتظار بہتر ہے ہاں اِتنا کہہ سکتے ہیں کہ مودی نے روس اور یوکرین کے ساتھ بیک وقت تعلقات رکھنے اور دفاعی حوالے سے توازن لانے کی کوشش کی ہے۔

عالمی رہنما بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہمسایہ ممالک کے تحفظات دور کیے جائیں تاکہ وہ ہمسائیگی میں خود کو محفوظ خیال کریں۔ نیز جارحانہ حکمتِ عملی کی بجائے امن پسندانہ طرزِ عمل اپنایا جائے لیکن مودی کی حکمرانی میں بھارت جنوبی ایشیا میں ایک ایسا ناقابلِ اعتبارملک بن گیا ہے جس سے کوئی ہمسایہ خوش نہیں۔ سری لنکا سے اُٹھنے والی بھارت مخالف لہر نیپال، مالدیپ سے ہوتی ہوئی بنگلہ دیش تک جا پہنچی ہے مگر بھارت نے نفرت کی لہر کو کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی ہمسایہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت محسوس کی ہے، بلکہ ڈرا کر ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے جسے قابلِ تعریف یا تحسین نہیں کہا جا سکتا۔ اسی بناپر چین کو مفادات کے حصول میں آسانی ہے ایسے حالات میں جب کوئی ہمسایہ بھارت سے خوش نہیں اور ملک کے اندربھی مودے فلسفے کے ناقدین کی تعداد بڑھتی جارہی جس سے وہ اپنی مقبولیت کے کمزور ترین درجے پر جا پہنچے ہیں اِن حالات میں عالمی رہنما بننے کی کوششیں باعثِ تعجب ہیں خیر مودی سے کچھ بھی ممکن ہے۔

ممکن ہے مودی کا خیال ہو کہ بھارت کا روس اور یوکرین سے بیک وقت قریبی دوطرفہ تعاون ہے اِس لیے اگر وہ ثالثی کی کوشش کریں گے تو دونوں ممالک پُرجوش خیر مقدم کریں گے۔ اِس کے باوجود وہ امن کوششوں کے لیے پہل بھی نہیں کرنا چاہتے نہ ہی دونوں ممالک نے مودی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ شاید وہ چاہتے ہیں دونوں ملک خود ہی لڑائی چھوڑ کر جنگ بندی کا سہرا بھی اُن کے سرپر رکھ دیں۔ البتہ دورے کے فوری بعد مودی کا صدر پوٹن اور صدر جوبائیڈن کو ٹیلی فون کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ روس اور امریکہ دونوں کو بھاگ دوڑ سے مطمئن کرنے کی آرزو رکھتے ہیں مگر تجزیہ کار متفق ہیں کہ مسلم دشمنی کے سوا مودی ہر معاملے میں گومگوں کا شکار ہیں۔

اگر وہ ایک قدم اُٹھاتے ہیں تو اگلے ہی لمحے پیچھے ہٹ جاتے ہیں عالمی رہنما اِتنا کمزور نہیں ہو سکتا بلکہ عالمی رہنما تو اعتماد سے قدم بڑھاتا اور دلیل سے قائل کرتا ہے مگر مودی میں اعتماد اور دلیل دونوں کا فقدان ہے۔ اِس لیے عالمی رہنما جیسا کٹھن اور دشوار مرحلہ توحاصل ہوناممکن نہیں البتہ مودی کی کوششوں کو سب سے فائدہ اُٹھانے کی بھارتی پالیسی کا احیا کہہ سکتے ہیں۔