Wednesday, 16 October 2024
  1.  Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Waqt Ki Nazakat Ka Ehsas

Waqt Ki Nazakat Ka Ehsas

معاشی مسائل سے دوچار پاکستان میں دہشت گردی جیسا مسئلہ بھی سنگین ہے جس پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِدارے کوشاں ہیں لیکن یہ کاوشیں فی الوقت کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اسی بنا پر سرمایہ کاری تو ایک طرف بیرونی دنیا تعلقات بڑھانے میں محتاط ہے اور کچھ خاص دوست ہی اپنے مفادات کے لیے پاکستان سے تعلقات بڑھانے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

ملک کو اِس نہج پر لانے میں دیگر عوامل کے ساتھ سیاستدانوں کا بھی اہم کردار ہے پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں بدقسمتی سے کچھ حکومتیں بھی بدامنی کے فروغ کا باعث ہیں۔ یہ کئی ایسے شدت پسند گروہوں کی سرپرستی کرتی ہیں جو براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ یہ شدت پسند اور دہشت گرد خطے میں سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں اور پاکستان کو معاشی استحکام سے دور رکھنے کے لیے مار دھاڑ سے خوف و ہراس پھیلاتے ہیں تاکہ سرمایہ کاری پر آمادہ ممالک یا عالمی اِداروں کو بددل کیا جا سکے۔

ایسے گروہوں کی سرپرستی میں پاکستان کا مشرقی ہمسایہ پیش پیش رہتا ہے۔ اِن حالات میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ جب ملکی مفاد کی بات آئے توسیاسی قیادت نوک جھونک ترک کردے لیکن ایسا نہیں ہو رہا بلکہ ایک دہائی سے سیاسی زندگی بڑھانے اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے احتجاج پر اِس حدتک انحصار کرلیا گیا ہے کہ غیر ملکی مہمانوں کا بھی خیال نہیں کیا جاتا۔

ہمارے پیارے نبیﷺ کا ارشاد ہے جو مہمان نواز نہیں اُس میں کوئی بھلائی نہیں۔ مگر امن و امان تباہ اور پُرامن فضا زہر آلود کرنے کے لیے شاہراہیں بند کردی جاتی ہیں حکمرانوں کو دھمکانے کے لیے للکارا جاتا ہے اپنی سیاست چمکانے کے لیے ملکی مفاد کو بھی داؤ پر لگا دیا جاتا ہے جس سے بیرونی دنیا کو ایسا تاثر ملتا ہے کہ یہاں کے سیاستدان ہڑبونگ پر یقین رکھتے ہیں اور یہ کہ ملک میں حکومتی رٹ نہیں اسی لیے تعلقات رکھنے میں مصلحت کا شکار ممالک بھی محتاط ہیں۔ حالانکہ شاہراہیں بند کرنے سے حکومت کو رتی بھرفرق نہیں پڑتا البتہ عوامی مشکلات میں ہی اضافہ ہوتا ہے۔ یہی عوام سیاستدانوں کو ووٹ دیکر ایوانوں میں پہنچاتی ہے لیکن اسی عوام کا زراخیال نہیں کیا جاتا اِن حالات میں سیاسی سرگرمیاں تو جاری رکھی جا سکتی ہیں تجارتی اور معاشی کونہیں۔

پندرہ اکتوبر سے دس ملکی شنگھائی تعاون تنظیم کا اسلام آباد میں شروع ہونے والا اجلاس پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ ایسے حالات میں جب بھارت اقوامِ عالم کو باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ پاکستان غیر اہم ملک ہے اور اِس سے تعلقات بڑھانا کسی کے لیے نفع بخش نہیں، نیز یہ ملک سرمایہ کاری کے بھی بہتر نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اِس زہریلے پراپیگنڈے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہی تریاق ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر سیاسی قیادت ملکی مفاد کے لیے یکسو ہو اور درپیش مسائل کے حل کے لیے سیاسی مفادات کی قربانی پر آمادہ، لیکن ایسا نہیں ہو رہا پندرہ اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس والے دن پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کردیا جسے کسی مکتبہ فکرنے نہیں سراہا۔ نہ صرف پی ٹی آئی کی قیادت اِس حوالے سے منقسم نظر آئی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی احتجاج کو موخر کرنے کے مطالبات سامنے آئے۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے مہمانوں کی آمد پر انارکی پھیلانے سے باز رہنے کی تلقین کی لیکن کچھ جوشیلے رہنما اپنے بانی سے ملاقات پر بضدرہے ایسے احتجاجی طرزِ عمل کی کوئی ذی شعور تائید نہیں کر سکتا جب جماعت کی قیادت کو تحفظات ہیں اور اتحادی جماعتیں بھی ناخوش ہیں تو پی ٹی آئی قیادت کو بھی افہام و تفہیم کی طرف آجانا چاہیے تھا۔

درپیش قانونی مسائل سے محفوظ رہنے کے لیے احتجاج کا راستہ ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ وقت قانونی موشگافیوں کے ماہرین سے کام لینے کا ہے۔ خوش قسمتی سے اِس جماعت کے اہم عہدوں پر فائز قانون دان ہیں مگر اُن سے کام لینے کی بجائے کارکنوں کو امتحان میں ڈالا جا رہا ہے ریاست کو بلیک میل کرکے بانی پی ٹی آئی کورہا کرانے کی سوچ غلط ہے۔

محتاط بیرونی دنیا تبھی اعتماد کرے گی جب ملکی سیاسی منظر نامہ زہر آلود نہ ہو اور قومی مفاد کے حوالے سے سیاسی قیادت یکجا، 2014 میں چینی صدر کی آمد سے قبل بھی پی ٹی آئی نے ایک طویل اور پُرتشدد دھرنے کا آغاز کیا جو صدر شی جن پنگ کا متوقع دورے کو ملتوی کرنے کا موجب بنا اور سی پیک معاہدے پر کام میں تاخیر ہوئی۔ اب بھی چین کے وزیرِ اعظم لی چیانگ کی آمد سے قبل کراچی میں چینی باشندوں کو نشانہ بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اِس ملک میں کوئی محفوظ نہیں۔

کچھ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ کراچی واقعہ پر ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے چین نے اپنے باشندوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا پُرزور مطالبہ کیا اِس کے باوجود چین کے وزیراعظم لی چیانگ وفد سمیت پاکستان تشریف لے آئے لیکن بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں پر پابندی کو جواز بناکر ڈی چوک پر احتجاج کا اعلان کر دیا گیا۔ مزید یہ کہ بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر کو احتجاج میں شرکت کی دعوت بھی دیدی گئی جس کی بعد ازاں تردید سے زہرناکی کم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل پر اب سوال اُٹھنے لگے ہیں اور ایسی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں کہ پاک چین بڑھتی قربتیں کم کرنے کے لیے یہ جماعت آلہ کار ہے کیونکہ جب بھی چین سے کوئی اہم شخصیت آنے کا اعلان ہوتا ہے یہ جماعت بے چین ہوکر احتجاج کے لیے نکل آتی ہے۔

جب یہ سب عہدے، مقبولیت اور سیاست پاکستان کی مرہون منت ہے تو پھر اپنے ہی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا حکومت نے بظاہر اندرونی دباؤ پر بروقت قابو پالیا اور اب سربراہی اجلاس بھی آج اختتام کے قریب ہے لیکن کچھ سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں سے کئی ایسے سوال جنم لے چکے ہیں جن کے وہ جواب شاید ہی دے سکیں۔

خطے میں سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعاون کو فروغ دینے کے حوالے سے شنگھائی تعاون تنظیم نے کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جن سے پاکستان میں معاشی بہتری لانے کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ سربراہی اجلاس کی میزبانی پاکستان کو ملنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اجلاس کو اہمیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار ثابت کرنے والے مایوس کرنے اور خطے میں اہم تر ثابت کرنے کے لیے یہ اجلاس نہایت اہم ہے۔

یہ اجلاس تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کے حوالہ سے پاکستان کو مرکز بنا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ کیا یہ پہلو اہم نہیں کہ بھارت جو پاکستان سے کشمیر سمیت کسی بھی مسئلہ پر مزاکرات سے ہی انکاری ہے وہ بھی شرکت کرنے پر مجبور نظر آیا حالانکہ 2015 میں افغانستان کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آئیں جس کے بعد سارک اجلاس ہو یا کوئی اور ایونٹ، بھارت نے عدم شرکت کی پالیسی اپنا لی مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے الگ رہنے کی وہ بھی ہمت نہ کر سکا۔