گزشتہ چند برسوں سے دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور عالمی سطح پر شہروں کی جانب آبادی کی منتقلی کی وجہ سے تازہ پانی کے ذخائر میں اضافے کے مطالبات بڑھے ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور وسائل کی کمی نے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے پائیدار ذخائر کی جانب متوجہ کیا ہے۔
دنیا کی آبادی کا چوتھائی حصہ رکھنے والے خطے جنوبی ایشیا کو پانی کی قلت کے شدید مسائل درپیش ہیں۔ ایشیا کے شمال سے وسط تک پہلے برصغیر میں قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ جیسے پہاڑی سلسلے ہیں اور یہاں کئی بڑے دریا اور ان کی شاخوں کا جال موجود ہے۔ پاکستان کے بعض دریا مغربی پہاڑوں سے بھی آتے ہیں لیکن جنوبی ایشیا میں بہنے والے زیادہ تر دریا تبت سے نکلتے ہیں۔
سندھ، گنگا اور ان کی شاخیں، برہما پتر تبت سے شروع ہوتے ہیں۔ تبت صرف جنوبی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا کے آبی تحفظ کا مرکز ہے۔ میکونگ اور یانگتسے دریا بھی تبت سے نکلتے ہیں۔ تبت کی سطح مرتفع میں برفانی تودوں کے بڑھتے ہوئے پگھلاؤ، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں برسات کے معمول میں تبدیلی سے ان کروڑوں لوگوں کا مستقبل خطرے میں ہے جو تبت سے نکلنے والے دریاؤں پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔
تبت میں گلیشیئرز پگھلنے کی سالانہ شرح 7فی صد ہے اور اس حساب سے 2050 تک دو تہائی برف پگھل جائے گی۔ اس سے مختصر مدت کے لیے دریاؤں میں بہاؤ بڑھے گا لیکن یہ اسی وقت تک ممکن رہے گا جب تک گلیشیئر سے اس کا سلسلہ برقرار رہے۔ ایشیا ان تبدیلیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ برسات کے بدلتے ہوئے معمول سے تازہ پانی کے ذخائر کا بحران مزید سنگین ہورہا ہے۔
موسمی تغیرات اور ایشیا میں آبادی کے اضافے اور شہروں کی جانب منتقلی کی وجہ سے محدود آبی ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ برصغیر سمیت ایشیا کے آبی ذخائر کے انتظام و انصرام سے متعلق چین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مجموعی طور پر چین کی سرزمین خشک ہے یہاں کم بارشیں ہوتی ہیں اس لیے پانی کی قلت اس کے لیے قومی سلامتی کا اہم مسئلہ ہے۔
ڈیموں، آب پاشی کے نظام اور دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر چین کے لیے صرف اپنی سوا ارب آبادی کو پانی کی فراہمی کی وجہ سے اہم نہیں بلکہ عالمی سیاست میں استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔ شمالی خطے کے خشک موسم کی وجہ سے چین کے لیے تبت سے پانی کا رُخ اس جانب موڑنے کی ضرورت تھی۔ چین نے تبت کے میکونگ دریا پر 21ڈیم بنائے اور مزید کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ اس دریا پر کموڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویتنام کے 6کروڑ لوگوں کا انحصار ہے۔ اس خطے میں دریاؤں کے بہاؤ میں آنے والی تبدیلی کے اثرات تباہ کُن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میں موسم کی وجہ سے نقل مکانی اور آبی ذخائر پر جنگوں جیسے خطرات بھی شامل ہیں۔
اسی طرح چین برھماپترا پر بھی دو مزید ڈیم بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ان منصوبوں کا اثر بھارت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر ہوگا اس لیے وہ مزید ڈیم تعمیر کرنے کی مخالفت کررہا ہے۔ پانی کا رُخ موڑنے کے چینی منصوبے سے آبی بہاؤ، زراعت، ماحولیات اور نچلے رخ پر بسنے والے بنگلہ دیش اور بھارت کے ایک ارب سے زائد لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔
گنگا کے بالائی رخ پر بھارت کی سرگرمیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش کو بھی پانی فراہمی سے متعلق خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ برہماپتر اور گنگا کا سنگم بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ خلیج بنگال میں گر جاتے ہیں۔ بھارت کی وجہ سے گنگا کا بہاؤ پہلے ہی کم ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش کی مٹی میں نمکیات کے اضافے سے اس کی زراعت بری طرح متاثر ہوئی جس کی وجہ سے ہزاروں بنگالیوں کو شمال مشرقی بھارت کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی۔ وہاں نسلی تفاوت کی وجہ سے تنازعات نے جنم لینا شروع کیا، بھارت کا شہریت قانون جس کی محض ایک ابتدا ہے۔ نچلے رُخ کے بہاؤ پر بسنے والے بنگلہ دیشی عوام کے لیے مزید ہول ناک نتائج نکل سکتے ہیں اور بنگلہ دیش ان سے نمٹنے کی زیادہ صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ پانی کی فراہمی میں مزید کمی ملک کے اندر تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے 1960میں عالمی بینک کے زیر نگرانی ہونے والا سندھ طاس معاہدہ بڑی مصیبت ہے۔ یہ بھارت اور پاکستان کے مابین سندھ کے دریائی نظام میں پائے جانے والی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے۔ اس کے مطابق تین "مشرقی دریاؤں" بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کو اختیار حاصل ہے جب کہ مغربی دریاؤں سندھ، چناب اورجہلم پاکستان کو دیے گئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر کئی برسوں سے تنقید ہورہی ہے تاہم بھارت نے برصغیر میں پانی کی قلت کی پیش بندی کے طور پر اپنی حدود سے تجاوز کرنا شروع کیا اور کشن گنگا جیسے منصوبے تعمیر کیے۔ اس ڈیم کے ذریعے بھارت نے دریائے نیلم کا رخ اپنی جانب پھیر لیا۔ اس کے علاوہ جب بھارت کو سیلابی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے تو وہ پیشگی اطلاع دیے بغیر اس ریلے کا رُخ پاکستان کی جانب کردیتا ہے جس کی وجہ سے یہاں سیلاب آتے ہیں۔
دریائے نیلم کشن گنگا ڈیم اور چناب پر رتل ہائیڈرو پاور منصوبے پر شدید اعتراضات کے باوجود بھارت ان کی تعمیر سے باز نہیں آیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جون 2018میں 330میگا واٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو پاور اسٹیشن کا افتتاح کیا۔ اس پر کام اس دوران مکمل ہوا جب عالمی بینک نے 2016میں پاکستان کی جانب سے مصالحتی عدالت کے قیام کی درخواست کو ’روک، رکھا تھا۔
بھارت نے غیر جانب دار ماہرین کے مطالبے کو بنیاد بنا کر پاکستان کی درخواست کی مخالفت کی تھی۔ اس معاملے سے بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بھارت عالمی معاہدوں کی کتنی قدر کرتا ہے اور پاکستان کے لیے کتنا زیادہ عناد رکھتا ہے۔ مودی برسرعام سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کوملنے والا پانی روکنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر پانی پر ممکنہ پاک بھارت جنگ کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے جو قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔
تبتی دریاؤں کے حصے دار ممالک کے مابین علاقائی طاقت کا عدم توازن پایا جاتا ہے۔ باہمی کشیدگی، بے اعتمادی اور قانونی طور پر لازم کسی بین الاقوامی معاہدے کی عدم موجودگی اس سلسلے میں کسی بڑی پیش رفت کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں۔ 1995میں میکونگ ریور باسن سے متعلق ہونے والے ایک طے شدہ معاہدے میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ یہ دریا کسی ریاست کی ملکیت نہیں۔ نچلے بہاؤ کے ممالک کی پائیدار تعمیر و ترقی اور باہمی تعاون اس معاہدے کا مقصد تھا۔ لیکن چوں کہ وہ علاقہ جہاں سے یہ دریا شروع ہوتا ہے چین کی حدود میں ہے، اس لیے چین نے اس معاہدے میں شریک ہونے سے انکار کردیا۔
1995سے عالمگیریت کا عمل تیز تر ہوگیا اور موسمیاتی تغیرات کی رفتار بھی بڑھ گئی۔ وقت آچکا ہے کہ مختلف ممالک کی سرحدوں سے گزرتے آبی وسائل میں شراکت کے تنازعات طے کیے جائیں۔ عالمی سطح پر بدلتی صورت حال کے باعث قومی ریاستوں کی علاقائی خودمختاری کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بین الممالک اور بین العلاقائی تنازعات کے سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششیں تیز ہونی چاہییں کیوں کہ یہ کروڑوں انسانوں کی زندگی کا سوال ہے۔ (جاری ہے)
(کولمبو میں کی گئی گفتگو کے اقتباسات۔ فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )