پانی کی قلت اور اس کے حصے داری کے بحران کو سیاست سے ہٹ کر دیکھنے کا مطالبہ سننے میں آسان لیکن عمل میں مشکل ہے۔ ایسے خطے میں جہاں سرحدی تنازعات ناقابل حل ہیں اور ان کی بنا پر ماضی میں کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ پھر ان حالات میں جب چین ایک بڑی قوت کے طور پر سامنے آرہا ہے، ابتدا میں اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہوں گے۔ اس کے علاوہ ان مسائل کے فریق ممالک اور حکومتوں کو آبی وسائل کے انتظام کے لیے پائیدار قومی پالیسی اور اس کے نفاذ کے لیے مستحکم ادارے بنانا ہوں گے۔ علاقائی سطح پر بھی تمام فریقین کو اپنا ہوم ورک پورا کرنا ہوگا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پانی کے انتظام و انصرام کا مسئلہ بنیادی طور پر خالص انسانی مسئلہ ہے اور اسی تناظر میں اسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پینے کے پانی کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کی طرف آبادی کی منتقلی نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ موسمی تغیرات اور وسائل کی قلت کے باعث پانی کے مسائل کے پائیدار حل کی ضرورت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں دنیا کی چوتھائی آبادی بستی ہے، یہاں جغرافیائی اور سماجی تنوع بھی کہیں زیادہ ہے۔ اس خطے کے لیے آبی قلت کا چیلنج انتہائی سنجیدہ صورت اختیار کرچکا ہے۔ قراقرم، ہندو کش اور ہمالیہ جیسے پہاڑی سلسلے برصغیر کو وسطی ایشیاء سے الگ کرتے ہیں۔ اس خطے میں ان پہاڑی سلسلوں سے نکلنے والے دریاؤں کا جال بچھا ہے۔ پاکستان کے بعض دریا مغربی پہاڑوں سے بھی آتے ہیں تاہم جنوبی ایشیا کے زیادہ تر دریاؤں کا ماخذ تبت ہے۔
برہماپترا دریا مغربی تبت سے نکلتا ہے۔ تبت سے 29 سو کلو میٹر آگے یہ مغرب کی جانب ایک غیر معمولی موڑ کاٹ کر بھارت کی جانب رخ کر لیتا ہے۔ جنوب کی جانب مڑنے سے قبل یہ بنگلہ دیش اور خلیج بنگال میں بھی جاتا ہے۔
دریائے سندھ تبت کے علاقے جھیل منا سروور سے شروع ہوتا ہے۔ پاکستان میں شمال کی جانب سے داخل ہونے سے پہلے یہ مغرب میں کشمیر کے ضلع لداخ کی جانب بہتا ہے۔ یہ دریا پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بہتا ہوا کراچی کے قریب سمندر میں گرتا ہے۔ 3180 کلومیٹر کی طوالت کے ساتھ یہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے۔
ستلج یا تبت میں لنگ چھن کھمبب کہلانے والا دریا پاکستان میں ایک مختلف راستہ بناتا ہے۔ اپنے نگری کے مقام پر ساتھی دریا میں ملنے سے قبل یہ دریائے سندھ کے ساتھ سمندر تک 1000 کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے۔
اراوادے میانمار کا سب سے بڑا دریا ہے جس پر پورے ملک کا انحصار ہے۔ اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دریا کہاں سے نکلتا ہے کیوں کہ اس علاقے میں چین اور بھوٹان کے مابین سرحدی تنازعہ بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم اس تک پانی پہنچانے والا بڑا دریا دولانگ جیانگ تبت ہی سے نکلتا ہے اور میمانمار سے پہلے یونان صوبے سے گزرتا ہے۔
بھوتی کوسی دریا یعنی تبت سے آنے والا دریا تبت سے نکل کر معروف پہاڑی ششاپنگما سے ہوتا ہوا بہتا ہے۔ یہ نیپال کا سب سے بڑا دریا ہے۔ گنگا میں گرنے والے دونوں دریا بھوتے کوسی اور کرنالی تبت کے مغرب سے نکلتے ہیں۔ تبت محض جنوبی ایشیا کا مرکزی نقطہ نہیں بلکہ اس خطے کے آبی تحفظ کے اعتبار سے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ میکونگ اور یانگست دریا بھی یہیں سے نکلتے ہیں۔ تبت میں گلیشیئر کے پگھلاؤ میں اضافے اور جنوب، جنوب مشرقی ایشیا میں برسات کے بدلتے ہوئے معمول کی وجہ سے بین السرحدی دریاؤں پر انحصار کرنے والے کروڑوں لوگوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔ تبت میں گلیشیئر کے پگھلنے کی حالیہ سالانہ شرح سات فی صد ہے۔
اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو 2050 تک دو تہائی گلیشیئر ختم ہو جائیں گے۔ اسی تیز پگھلاؤ کی وجہ سے برہما پُتر جیسے بعض دریاؤں کے بہاؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن ان دریاؤں میں پانی کی یہ فراوانی گلیشیئرز کے پگھلنے تک ہے۔ ایشیا اب ان ذرایع پر زیادہ دیر تک انحصار نہیں کرسکتا۔ برسات کے بدلتے معمول کی وجہ سے آبی وسائل سے متعلق مزید مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
موسمی تبدیلیوں، ایشیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی شہروں کی جانب تیزی سے منتقلی کی وجہ سے آبی وسائل پر دباؤ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ تاہم چین ایشیا کے بنیادی آبی وسائل کے انتظام و انصراف میں مرکزی کردار بن کر ابھرا ہے۔
مجموعی طور پر چین کی سرزمین خشک ہے یہاں کم بارشیں ہوتی ہیں اس لیے پانی کی قلت اس کے لیے قومی سلامتی کا اہم مسئلہ ہے۔ ڈیموں، آب پاشی کے نظام اور دیگر آبی منصوبوں کی تعمیر چین کے لیے صرف اپنی سوا ارب آبادی کو پانی کی فراہمی کی وجہ سے اہم نہیں بلکہ عالمی سیاست میں استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔ شمالی خطے کے خشک موسم کی وجہ سے چین تبت سے پانی کا رُخ اس جانب موڑنے کی ضرورت تھی۔ چین نے تبت کے میکونگ دریا پر 21ڈیم بنائے اور مزید کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ اس دریا پر کموڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویتنام کے 6کروڑ لوگوں کا انحصار ہے۔ اس خطے میں دریاؤں کے بہاؤ میں آنے والی تبدیلی کے اثرات تباہ کُن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میں موسم کی وجہ سے نقل مکانی اور آبی ذخائر پر جنگوں جیسے خطرات بھی شامل ہیں۔
اسی طرح چین برھماپترا پر بھی دو مزید ڈیم بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ ان منصوبوں کا اثر بھارت کے ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹس پر ہوگا اس لیے وہ مزید ڈیم تعمیر کرنے کی مخالفت کررہا ہے۔ پانی کا رُخ موڑنے کے چینی منصوبے سے آبی بہاؤ، زراعت، ماحولیات اور نچلے رخ پر بسنے والے بنگلہ دیش اور بھارت کے ایک ارب سے زائد لوگوں کو نقصان پہنچائے گا۔
گنگا کے بالائی رخ پر بھارت کی سرگرمیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش کو بھی پانی فراہمی سے متعلق خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ برہماپتر اور گنگا کا سنگم بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ خلیج بنگال میں گر جاتے ہیں۔ بھارت کی وجہ سے گنگا کا بہاؤ پہلے ہی کم ہوچکا ہے۔ بنگلہ دیش کی مٹی میں نمکیات کے اضافے سے اس کی زراعت بری طرح متاثر ہوئی جس کی وجہ سے ہزاروں بنگالیوں کو شمال مشرقی بھارت کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی۔ وہاں نسلی تفاوت کی وجہ سے تنازعات نے جنم لینا شروع کیا، بھارت کا شہریت قانون جس کی محض ایک ابتدا ہے۔ نچلے رُخ کے بہاؤ پر بسنے والے بنگلہ دیشی عوام کے لیے مزید ہول ناک نتائج نکل سکتے ہیں اور بنگلہ دیش ان سے نمٹنے کی زیادہ صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ پانی کی فراہمی میں مزید کمی ملک کے اندر تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے 1960میں عالمی بینک کے زیر نگرانی ہونے والا سندھ طاس معاہدہ بڑی مصیبت ہے۔ یہ بھارت اور پاکستان کے مابین سندھ کے دریائی نظام میں پائے جانے والی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے۔ اس کے مطابق تین "مشرقی دریاؤں" بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت کو اختیار حاصل ہے جب کہ مغربی دریاؤں سندھ، چناب اورجہلم پاکستان کو دیے گئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر کئی برسوں سے تنقید ہورہی ہے تاہم بھارت نے برصغیر میں پانی کی قلت کی پیش بندی کے طور اپنی حدود سے تجاوز کرنا شروع کیا اور کشن گنگا جیسے منصوبے تعمیر کیے۔ اس ڈیم کے ذریعے بھارت نے دریائے نیلم کا رخ اپنی جانب پھیر لیا۔ اس کے علاوہ جب بھارت کو سیلابی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے تو وہ پیشگی اطلاع دیے بغیر اس ریلے کا رُخ پاکستان کی جانب کردیتا ہے جس کی وجہ سے یہاں سیلاب آتے ہیں۔
(کولمبو میں کی گئی گفتگو کے اقتباسات۔ فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں اس موضوع پر ان کے سلسلہ مضامین کایہ دوسراحصہ ہے)