متعدد قومیتوں، زبانوں اور مقامی قومی گروہوں کی وجہ سے ہندوستان ایک ملک کے بجائے برصغیر ہے۔ انھی زمینی حقائق کی وجہ سے بھارت کو اس حوالے سے چلینجز کا سامنا رہا۔ اس وقت کے حکمرانوں کو ان مسائل کا اندازہ ضرور تھا لیکن رفتہ رفتہ علیحدگی پسند تحریکیں جڑ پکڑتی گئیں۔
مختلف حکومتی ادوار میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پولیس میں بہتری کی گئی، خصوصی نیم فوجی دستے ترتیب دیے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ اراضی سے متعلق اصلاحات اور نئے قوانین کے سختی سے اطلاق کے ذریعے مقامی افراد کے تحفظات دور کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔
بھارت کے ثقافتی اور مذہبی تنوع اور رنگا رنگی کے پیش نظر برطانوی راج کے خاتمے کے بعد اس کے حکمرانوں کو اچھی طرح اس بات کا اندازہ تھا کہ انھیں اسے ایک سیکولر ریاست بنانا ہوگا، جس میں مختلف مذہبی گروہوں کو اپنے مذہب کی تعلیمات پر نجی و عوامی زندگی میں عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوگی اور کسی مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
قوم اور قومیت سے متعلق مغربی تفہیم سے مربوط اس تصور کو انڈین نیشنل کانگریس کی سربراہی میں اٹھنے والی نوآبادیات مخالف تحریک نے اپنا نصب العین بنایا۔ تاہم یورپ میں جس سیکولرازم کا تجربہ کام یاب ہوا تھا برصغیر میں نہ تو اس کی ویسی تفہیم ہوسکی اور نہ یورپ کی طرح اس پر عمل درآمد کیا جاسکا۔ برصغیر میں مذہب نجی زندگی تک محدود نہیں، اسے یہاں پیدائش سے موت تک مکمل طرز حیات تصور کیا جاتا ہے۔
اپنے طے شدہ مفہوم میں ہندومت یا ہندوازم بھی برطانوی تصور ہے۔ 19ویں صدی تک ہندوستان کے برہمنوں نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ان کے ہم مذہب ہیں۔ آج تک یہ بحث جاری ہے کہ ذات پات کا نظام مذہبی بنیاد رکھتا ہے یا اسے محض سماجی و اقتصادی درجہ بندی سمجھنا چاہیے۔
آج بھی اس خطے میں سیکولرازم کو سمجھنے والے خال خال ہیں۔ 1920 کی دہائی میں تشکیل پانے والا ہندوتوا کا نظریہ، جس سے بی جے پی نے جنم لیا، اس کی واضح مثال ہے۔ قومیت کا جو نظریہ نوآبادیات کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو متحد کرنے کی بنیاد بنا تھا، وہی برطانوی ہند میں فطری طورپر رفتہ رفتہ مذہبی قوم پرستی میں تبدیل ہوگیا۔
کانگریس نے سیکیولرزم کا دکھاوا تو بہت کیا لیکن ہمیشہ سے ہندوتوا کی فکر بھارتی قوم پرستی کی بنیاد رہی۔ کانگریس کی حقیقی قیادت لالہ لاجپت رائے، مدن موہن مالیہ اور ولبھائی پٹیل جیسے ہندوقوم پرستوں کے ہاتھوں میں رہی۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ گاندھی کو ایک انتہا پسند ہندو قوم پرست نے قتل کیا! خیر، ہندوتوا کے تصور میں "ہندوستانیت" کو ہندو ہونے سے مشروط کیا جاتا ہے اور تمام مذاہب کو ہندومت میں تحلیل کردینا اس کے مقاصد میں شامل ہے۔
اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے، اس حقیقت سے صرف نظر کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت مقامی آبادی پر مشتمل ہے جنھوں نے اسلام قبول کیا اور یہ لوگ ایران، عرب یا وسطیٰ ایشیاء سے یہاں نہیں آئے۔ جن کے آباؤ اجداد کا تعلق ہندوستان سے نہیں تھا وہ بھی نسل درنسل یہاں آباد ہیں اور مقامی آبادی کا حصہ بن چکے ہیں۔
بھارت کی موجودہ صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہائیوں ملک پر حکومت کرنے والی کانگریس بھارتیوں کی اکثریت کو سیکیولرزم کا مفہوم نہیں سمجھا سکی۔ انتخابات میں کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی کام یابی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ مودی کے پہلے دور حکومت میں ہم نے روزانہ تبدیلیٔ مذہب کے لیے تشدد کرنے والے ہندوؤں کے ہجوم کے سامنے مسلمانوں اور مسیحیوں کو رحم کی بھیک مانگتے دیکھا۔ 2014میں بننے والی مودی سرکار میں حکومتی اداروں نے از سر نو تاریخ لکھنا شروع کی، اس میں سے مسلمان حکمرانوں کا تذکرہ نکال دیا گیا اور سرکاری سطح پر کئی شہروں اور مقامات کے مسلم نام تبدیل کرکے ہندی نام رکھ دیے گئے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کے بے دردی سے قتل کے واقعات میں تیزی آگئی اور ان میں ملوث افراد کو شاذ و نادر ہی کبھی سزا ہوئی۔
آرٹیکل 370ختم کرکے ستر لاکھ کشمیری مسلمانوں پر حملہ محض ابتدا ہے۔ آسام میں بنگلہ دیشی مسلمان تارکین وطن کے باعث نقص امن کو بنیاد بنا کر بی جے پی ہندوتوا کے نظریے کے مطابق "غیر ملکیوں" کو ملک بدر کرنے کی مہم کا آغاز کرچکی ہے۔ حکومت کی جانب سے آسام میں چالیس لاکھ افراد کو غیرملکی قرار دے کر بے وطن ہونے کے خدشات لاحق ہیں کیوں کہ بی جے پی کی حکومت انتہا پسند ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ہر حد پار کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس مہم کا مقصد یہ تعین کرنا ہے کہ کون بھارتی ہے اور کون نہیں۔ آسام میں بھارتی شہریوں کی فہرستیں جاری کردی گئی ہیں اور جن کا نام فہرست میں شامل نہیں انھیں جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔
ریاستی حکومت غیرملکی ٹریبیونل میں اضافہ اور نئے حراستی کیمپ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ سیکڑوں لوگوں کو غیر ملکی ہونے کے شبے میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اس مہم کا مقصد غیر قانونی طور پر سکونت پذیر بنگلہ دیشی تارکین وطن کی نشان دہی بتائی جاتی ہے۔ لیکن آسام میں نسل در نسل آباد کوئی شخص بھی اپنے آباؤ اجداد سے متعلق دستاویزی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے تو اسے بھی قید میں ڈالا جارہا ہے۔ بھارت کی مسلم اقلیت پر خوف کے سائے دن بہ دن گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ آسام میں ایک برس قبل شروع ہونے والا شہریوں کی رجسٹریشن کا سلسلہ 31اگست کو اختتام پذیر ہوا۔ کیا دیگر بھارتی ریاستوں میں بھی یہی مثال دہرائی جائے گی؟
اس کے علاوہ مودی سرکار پارلیمنٹ سے ایک ایسے قانون کی منظوری کے لیے بھی کوشش کرچکی ہے جس کے مطابق مسلمانوں کے علاوہ دیگر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو شہریت کے لیے ریکارڈ کی فراہمی سے مستثنی کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی آسام پر نہیں رکے گی۔ بی جے پی کے سربراہ امت شاہ اور دیگر رہنما اپنے حامیوں سے ملکی سطح پر شہریوں کی جانچ پڑتال کا وعدہ کرچکے ہیں۔ اس پالیسی کا رُخ بہت واضح ہوگا، اس کے ذریعے مسلمانوں کو ملک دشمن اور غیر ملکی قرار دیا جائے گا اور بی جے پی اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ ایسی صورت حال بھارت کی سالمیت کے لیے ایک نیا خطرہ ثابت ہوگی۔
اس مشکل سے نکلنے کے لیے مسلمانوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ 2018کے اندازوں کے مطابق بھارت میں 70لاکھ کشمیریوں سمیت 20کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر کے علاوہ مسلمانوں نے بھارت میں کہیں بڑی آبادیاں نہیں بنائیں، یہ پورے بھارت میں بکھرے ہوئے ہیں۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی کے فراہم کردہ ذرایع سے اپنی مذہبی آزادی کے لیے اور امتیازی سلوک کے خلاف مسلمانوں کی متحدہ جدوجہد کے امکانات ضرور پائے جاتے ہیں۔ ایسی کسی بھی پیش رفت کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کے اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کی مسلم مخالف پالیسیاں ان کے جذبات کو لاوے میں تبدیل کر رہی ہیں۔ کشمیر اور آسام تو صرف آغاز ہیں۔
(کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)