پاکستان کی بات ہو تو صرف ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کافی نہیں یہاں موبائل فون کو ادائیگی یا رقم کی منتقلی کا سب سے بڑا ذریعہ بنایا جاسکتاہے۔ آبادی میں نوجوانوں کا اتنا زیادہ تناسب ہے کہ بہ آسانی کہا جاسکتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والی یہ نسل یقینی طور پر موبائل کے ذریعے لین دین کو رواج دے سکتی ہے۔
فنانشل ٹیکنالوجی کو ’فِن ٹیک، بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد مالیاتی خدمات کے لیے ٹیکنالوجی کی نت نئی اختراعوں کا استعمال ہے۔ اس کی مدد سے ایسی سہولتوں کی رسائی کا خلا پُر کیا جاسکتا ہے اور مالیاتی شعبے کی جانب سے دی جانے والی خدمات کو کم خرچ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ اس میں ای کامرس کے ذریعے لین دین کے ذرایع تشکیل دینا بھی شامل ہے۔
پاکستان کی 80فی صد سے زائد آبادی کے پاس موبائل فون ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ الیکٹرانک پیمنٹ کی نئی اسکیم کے لیے اسمارٹ فون بھی درکار نہیں، عام فیچر فون اور بغیر انٹرنیٹ کے بھی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نقدی کے بغیر ڈیجیٹل لین دین کے رواج سے جرائم، چوری یا غیر قانونی رقوم کی منتقلی جیسے جرائم پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہر لین دین کے ڈیجیٹل ریکارڈ کی وجہ سے آمدن چھپانا، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ انتہائی مشکل ہوجائیں گے۔ دست یاب لین دین کے نظام میں رقم کی منتقلی 24گھنٹوں میں ہوجاتی ہے، اس کی فوری وصولی بھی ممکن ہے۔
رئیل ٹائم ادائیگی کے نظام سے یہ پورا عمل سیکنڈوں میں مکمل ہوجاتا ہے جس سے چھوٹی ادائیگیوں کا حجم بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔ فی الوقت یہ ٹیکنالوجی دنیا کے دس سے بارہ ممالک میں موجود ہے، پاکستان میں اسے متعارف کروانے میں مزید وقت لگے گا۔
ڈیجیٹل ذرایع سے رقوم کی فراہمی کا تعلق دفتری کارروائیوں کو ڈیجیٹل نظام پر منتقل کرنے سے ہے جو عام طور پر مالیاتی اداروں میں دستی (مینوئل طور پر) انجام دی جاتی ہیں۔ قرض کی فراہمی کے لیے بھی ایسے الگورتھم متعارف کروائے جارہے ہیں جن کی مدد سے درخواستوں کی جانچ پڑتال اور انھیں قبول یا رد کرنے کی پوری کارروائی خود کار طریقے سے انجام دی جاسکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے صرف موبائل فون کے ذریعے قرض حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ڈیجیٹل لینڈنگ یا قرض کی فراہمی میں کراؤڈ فنڈنگ اور پیئر ٹو پیئر(پی ٹو پی) لینڈنگ بھی شامل ہے۔ کراؤڈ فنڈنگ سے مراد کسی کاروباری منصوبے کے لیے بڑی تعداد میں مختلف لوگوں سے چھوٹے چھوٹے قرضے حاصل کیے جاتے ہیں۔ جب کہ پیئر ٹو پیئر لینڈنگ میں نفع نقصان اورکسی مالیاتی مداخلت کے بغیر قرض کا لین دین کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں ای پیمنٹ کا موثر نظام بنانے کی راہ میں ابھی تک کئی بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ درست ایپلی کیشنز اور ادائیگی کے مقامات کی فراہمی میں مشکلات اور غلطیوں کے ساتھ فراڈ کے امکانات بھی ہیں۔ سائبر سیکیورٹی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ڈیجیٹل پیمنٹ کو قابلِ اعتماد بنانے کے لیے اس میں غبن یا دھوکا دہی کو مکمل ختم کرنا یا انتہائی مشکل بنانا ضروری ہے۔
صارفین کے تحفظ کے لیے وفاقی و صوبائی سطح پر قوانین موجود ہیں اور الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002کے ذریعے اس حوالے سے درکار تکنیکی امور بھی واضح کردیے گئے ہیں۔ ان قوانین کا اطلاق ای کامرس کی ٹرانزیکشنز پر بھی ہوتا ہے۔ صارفین کو اپنے حقوق کی آگاہی نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان میں لین دین کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی بہت گنجائش اور امکانات ہیں۔ اس کے لیے درجن بھر سے زائد کمپنیاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے لائسنس حاصل کرچکی ہیں۔ وائرس کی وجہ سے نقل و حرکت محدود ہوچکی ہے اور اس کی وجہ سے مالیاتی اور ڈیجیٹل ماہرین کو ان ذرایع لین دین کے نفاذ پر کام کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آنی چاہیے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اسمارٹ کارڈ کے ذریعے رقوم تقسیم کی گئیں۔ بائیومیٹرک تصدیق کے ذریعے مستحقین کی درست نشان دہی میں نادرا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مستحق خاندانوں کو فون بینکنگ کے ذریعے رقوم کی منتقلی ہوئی۔ نقد رقوم کی وصولی کے نادرا کی جانب سے سم اور موبائل فون فراہم کیے گئے۔
ایس ایم ایس اور نادرا کے قابل استعمال شناختی کارڈ کی کاپی کے ذریعے پوائنٹ آف سیل فرنچائز پر نقد رقم فراہم کی گئی۔ اس وقت موجودہ نظام میں 2کروڑ 70لاکھ گھرانوں کی معلومات موجود ہیں اور چالیس لاکھ بی آئی ایس پی ڈیبٹ کارڈ جاری کیے جاچکے ہیں۔ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کی سہولت کے اعتبار سے بی آئی ایس پی کے تحت اسمارٹ کارڈ، موبائل، ڈیبٹ کارڈ اور منی آرڈر جیسے ذرایع کا استعمال کیا جارہا ہے۔
عمران خان نے 2018میں برسر اقتدار آتے ہی غربت اور کرپشن کے خاتمے کو اپنا بنیادی ہدف قرار دیا۔"نیا پاکستان" کی اس منزل کے حصول کے لیے غربت میں کمی کی خاطر مارچ 2019میں "احساس" پروگرام شروع کیاگیا۔ حق دار افراد کی نشاندہی میں آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تاحال 2017میں ہونے والی آخری مردم شماری کے نتائج کی سرکاری طور پر توثیق نہیں ہوسکی ہے۔
"احساس ایمرجنسی پروگرام" میں امداد سے مستفید ہونے والوں کی ایس ایم ایس کے ذریعے تصدیق کی گئی۔ کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے بحران میں کم زور طبقات کو بھوک سے بچانے کے لیے مالی مدد کا یہ پروگرام تشکیل دیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں میں 12ہزار روپے فی خاندان تقسیم کیے گئے اور اس کے لیے 144ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔
یہاں بھی ہمیں اسی سوال کا سامنا ہے کہ اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں کو جس مقصد کے لیے یہ رقم فراہم کی جارہی ہے اسی پر اس کا خرچ کیسے یقینی بنایا جائے؟ اس معاملے کی نگرانی بہت ضروری ہے۔ تقسیم کے لیے موجودہ طریقہ کار میں چند مقامات ہی پر تقسیم کی جارہی ہے جس کے باعث ہجوم لگ جاتا ہے اور سماجی دوری پر بھی عمل درآمد بھی ممکن نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں اس طریقہ کار سے وبا کے متاثرین میں اضافے کا خدشہ بھی ہے۔ ٹیکنالوجی کے کئی تخلیقی اور موثر حل پہلے ہی دست یاب ہیں اور اس موقعے پر ان سے استفادہ کرکے اس بحران سے بھی بہتری کی ایک راہ نکالی جاسکتی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے آسان اکاؤنٹ کی اسکیم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) اور 12بینکوں کے اشتراک سے بنائی تھی۔ اس کی طویل آزمائش بھی ہوچکی ہے۔ آزمائشی بنیادوں پر چلنے کے بعد یہ باقاعدہ اجرا کے لیے تیار ہے۔ آسان موبائل اکاؤنٹ یو ایس ایس ڈی ڈائل کرنے یا احساس پروگرام میں ریجسٹریشن کے ذریعے بھی بہ آسانی کھلوایا جاسکتا ہے۔ اس سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
ایف بی آر کو اپنے مفادات کی وجہ سے آسان موبائل اکاؤنٹ پر ضرور تحفظات ہوں گے۔ تاہم اس اکاؤنٹ سے ہونے والا تمام لین دین ریکارڈ پر ہوگا۔ رقم کی منتقلی کے بعد اس پروگرام سے مستفید ہونے والا فردکسی بھی یوٹیلیٹی اسٹور یا رجسٹرڈ شدہ کریانہ ایجنٹ سے 12ہزار یا حکومت کی جانب سے راشن کی خریداری کے لیے متعین کردہ کم سے کم رقم 9ہزار روپے کا راشن خرید سکتا ہے اور یو ایس ایس ڈی کوڈ سے ادائیگی بھی کرسکتا ہے۔ جو رقم سامان کی خریداری میں استعمال نہیں ہوئی ہو اسے موقعے پر نقد کی صورت میں بھی حاصل کرسکتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کارہیں )