میثاقِ جمہوریت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان آج سے سترہ سال قبل 2006 میں ہوا۔ اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے نہ صرف ملک بلکہ اس سے باہر بھی شادیانے بجائے گئے اور اسے ایک تاریخی اقدام قرار دیے جانے کا بیانیہ تیار کیا گیا۔ دانشوروں کی ایک کھیپ نے اسے قائد اعظم کے میثاقِ لکھنو جتنا اہم قرار دیا۔
کہا گیا کسی بھی طالع آزما کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا ہے۔ اس نام نہاد میثاق کے عقب میں بظاہر یہ سوچ کارفرما تھی کہ دو مقبول ترین جماعتیں اب باہمی مناقشت، ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے اجتناب کریں گے۔ اصل میں یہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ایک نیا روپ تھا جس میں کسی قسم کے بھی نظریے کو ہمیشہ کے لیے بارہ پتھر کر دیا گیا تھا۔ اقتدار کو ہی پہلی اور آخری منزل قرار دیا گیا۔ ان دو جماعتوں میں ایک مسلم لیگ ن اس سیاسی بوجھ کی وارث تھی جس نے اقتدار ہمیشہ سازش اور طاقتور حلقوں کی پشت پناہی پر حاصل کیا تھا۔
پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ پاکستان کو قیام کے فوراً بعد ہی عوام نے مسترد کر دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے چون کے الیکشن میں اسی مسلم لیگ کو جگتو فرنٹ نے ہرا دیا تھا۔ جگتو فرنٹ چار مشہور لیڈروں کی جماعتوں کا اتحاد تھا۔ اس فرنٹ میں مولوی فضل حق(قراردادِ پاکستان کے پیش کار)، حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور ایک غیر معروف مولانا اطہر کی جماعتیں تھیں۔ یہ ملک کی پارٹیوں کے مابین پہلا اتحاد تھا۔
مشرقی پاکستان کے الیکشن میں اس اتحاد یا فرنٹ نے مسلم لیگ کو مشرقی پاکستان کی تاریخ سے مکمل طور پر خارج کر دیا۔ تب اس جماعت نے اپنا ازلی ریشہ دوانیوں والا کام شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔ تب سکندر مرزا کو گورنر مشرقی پاکستان بنا کر بھیجا گیا۔ اس نے اس فرنٹ کی حکومت کو چلتا کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن مسلم لیگ کو اقتدار اسی طرح کی کارگزاریوں کے بدولت ملا ہے۔
مسلم لیگ خواہ قائد اعظم والی ہو یا کوئی اور اپنی عمر طبعی گزار چکی۔ پاکستان کی خالق جماعت میں ایک قائد اعظم ہی تھے جن کے ساتھ عوام جڑ گئی تھی۔ ورنہ پاکستان کے مغربی حصے کے تمام رہنما، جاگیرار، نواب، خوانین اور موقع پرست تھے۔ یہ سب کچھ قائد کی رحلت کے ساتھ اپنے اصل روپ میں ظاہر ہو گئے تھے۔ جمہوریت سے ان کی کمٹمنٹ ہوتی تو مشرقی پاکستان کے بنگالی رہنما الگ جماعتیں نہ بناتے۔ کبھی اس جماعت نے الیکشن نہ کروا کے جمہوریت کا راستہ روکا اور کبھی الیکشن میں ہار کر۔
جگتو فرنٹ کی مزدور کسان پارٹی کے سربراہ شیر بنگال کو اقتدار سے الگ کیا۔ جگتو فرنٹ نے تین سو نو سیٹیں جیت کر مسلم لیگ (محض نو سیٹیں) کا مشرقی پاکستان میں مستقبل تاریک کر دیا تھا۔ اسے پاکستان کے قیام کے سات سال بعد ہی ان نو سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن یاد کرتے جائیے اور ماتم کرتے جائیے کبھی پی این اے، کبھی آئی جے آئی اور کبھی پی ڈی ایم۔
اے شمع تیری عمرِ طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے
پیپلز پارٹی میثاقِ جمہوریت کے وقت دائیں بازو کی جماعت سمجھی جاتی تھی یا جس کا جھکاؤ قدرے لیفٹ کی طرف تھا وہ اس نظریے سے دستبردار ہو گئی۔ اس دو جماعتی اتحاد کا بھانڈہ کسی وقت بھی بیچ چوراہے پھوٹ سکتا تھا۔ مگر ان دونوں جماعتوں کو چیلنج کرنے والی کوئی تیسری جماعت میدان میں موجود ہی نہیں تھی۔
یہ دو جماعتوں کا ایسا باہمی کنٹریکٹ تھا جس میں اقتدار کی بندر بانٹ کی سازش کی گئی۔ اس کا عوام کی بھلائی سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اب پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں موجود سیاسی جماعتوں کی عمریں پچاس سال سے لے کر سو سال کے درمیان ہو گئی ہیں۔ اتنا عرصہ کسی بھی سیاسی جماعت کا زندہ رہنا ناممکن بات تھی۔ ان جماعتوں کے لیے ضروری تھا کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیتیں۔ ان میں جدید نظریات، عصری مسائل اور ان کے حل کا کوئی لائحہ عمل دیا جاتا۔
یہ ان ساری جماعتوں کے بس میں تھا ہی نہیں۔ ن لیگ کو اس لیے کھڑا کیا گیا تھا کہ کسی طرح پیپلز پارٹی کا راستہ روکا جا سکے۔ یہ ایک ایسی سیاسی چیک تھا جس کو اس پارٹی نے تیس سال تک کیش کرایا۔ مقتدر قوتوں کا وہ خواب پورا کیا۔ پیپلز پارٹی کو اپنے آبائی صوبہ سندھ تک محدود کر دیا۔ اسی میثاق کے نتیجے میں یہ پارٹی از خود پنجاب تک مکتفی ہو گئی۔ ایک پارٹی نے اپنا وجود پنجاب میں از خود ختم کیا دوسری نے برضا و رغبت سندھ تک رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب یہ جماعت پھر برسر اقتدار ہے۔
اب اس جماعت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اب اس کی قسمت میں آزادی کی پچھترویں ڈائمنڈ جوبلی پر قومی ترانے کی نئی کمپوزنگ ہے اور یہی کچھ وہ عوام کو دے سکتی ہے۔ وقت اور زمانے کی نیرنگی دیکھیے کہ دونوں جماعتوں کا اتحاد ہی ان کی آخری پناہ ہے۔ صوبائی سطح پر وہ موجود ہوں بھی تو قومی سطح کی سیاست میں الگ الگ ان کو ہزار خطرات کا سامنا ہے۔ ان کی قومی سطح پر بقا کسی اتحاد میں ہی ممکن ہے۔ مگر طرفہ تماشا ہے یہی اتحاد اور اکٹھ ان پر بھاری پڑ رہا ہے کہ اس سے ان کی وہ اصلیت واضح ہو گئی ہے جو انہوں نے میثاقِ جمہوریت کے پردے میں چھپائی ہوئی تھی۔
سیاسی منظر نامے کی جماعتیں یا پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں پر کہولت کے آثار نمایاں ہیں۔ ان میں قابل ذکر بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنی طبیعی عمر گزار چکی ہیں۔ ان کی نظریاتی موت ہو چکی۔ ان کے لیڈر جسمانی طور پر بوڑھے ہو چکے ہیں۔ ان میں Minimum Required (بنیادی ضروری) تحرک بھی نہیں۔ ان جماعتوں اور ان کی بوڑھی قیادت کی کب کی کلینکل موت واقع ہو چکی۔