کرکٹ محنت شاقہ سے اور شاعری محنت فاقہ سے آتی ہے۔ کرکٹ ایک بادشاہی کھیل ہے شاعری ایک درباری وصف ہے۔ امپائر دن میں ایک آدھ اشارہ بھی کرتا ہے۔ امپائر اچھے خاصے ہنیگر کے طور پر کام آ سکتا ہے۔ امپائر کے اشاروں سے اشاروں کی زبان بنی تھی۔ ایمپائر کھانا بھی کھاتا ہے سوتا بھی ہے۔ وہ ہمیشہ کرکٹ کے میدان میں کھڑا نہیں رہتا۔
کرکٹرز کہتے ہیں اقبال نے جو کہا تھا
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
وہ درس انہوں نے امپائرز کو ہی دیا تھا کسی اور پاکستانی ادارے کو نہیں۔ امپائر کا اندازہ درست اور سیاستدان کا اندازہ زیادہ تر غلط ہوتا ہے۔ یہ واحد مثال امپائر کی ہے۔ ضابطہ فوجداری اور ضابطہ دیوانی کی طرح ضابطہِ کرکٹ بھی ہوتا ہے۔ فرشتہ کو ایک ایک عمل پر اور امپائر ایک ایک گیند پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ امپائر کے منہ میں بھی زبان ہوتی ہے۔ وہ بولے نہ بولے اس کی مرضی۔ اتفاق سے کرکٹر بنا جا سکتا ہے امپائرنہیں۔ عجیب منطق ہے کرکٹ وہ واحد کھیل ہے جس میں ہر میچ میں ٹیسٹ اور ہر ٹیسٹ میں میچ ہوتا ہے۔
ایک ایک اور دو گیارہ کے محاورے کے بعد کرکٹ ٹیم بنی ہو گی۔ ایک انار نہ ملنے پرسو بیمار ہو سکتے ہیں کسی ایک کرکٹر کو میچ سے ڈراپ کر کے دیکھیں۔ شکر ہے اللہ پاک نے دن اور رات بنا دیے ورنہ ڈے اینڈ نائٹ میچ کیسے ہو سکنے تھے۔ اس لیے کرکٹ بورڈ کو ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرنا چاہییے۔ بلا نہ ہوتا تو عمران خان نے کہاں وزیر اعظم بننا تھا۔ زمانہ بدل جاتا ہے ٹیسٹ میچ کے اوقات نہیں بدلتے۔ کسی سے سن لیا ہو گا یہ دنیا چار دن کی ہے ایسی مایوسی سے بچنے کے لیے ٹیسٹ میچ پانچ دنوں کا کیا گیا تھا۔ مایوسی کفر ہے کی مثال ہمارے سابقہ اوپنر مدثر نذر تھے وہ اس قول کی عملی تصویر تھے۔ سارے ان کی ٹھک ٹھک سے مایوس ہو جاتے تھے ایک وہ خود مایوس نہیں ہوتے تھے اور دوسرے ہمارے ممدوح امپائر۔
صبح کے وقت یا پرندے خوش ہو کر اٹھتے ہیں یا ٹیسٹ ڈیبیو کے خواہشمند کھلاڑی۔ کام کام اور کام کا کیا فائدہ کرکٹ سے ہی سارے کام ہو جاتے ہیں۔ اپنا وزیر اعظم اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ہمارا وزیر اعظم اسی کرکٹ کی تربیت کی وجہ سے لوگوں سے اپیلیں کرتا رہتا ہے۔
کسی زمانے میں بھارت بارہ کھلاڑیوں کے ساتھ گرائونڈ میں اترتا تھا گیارہ کھلاڑی بارہواں ایمپائر۔ اسی بارہویں کھلاڑی پر افتخار عارف نے بارہواں کھلاڑی نظم لکھی تھی۔ انہوں نے شاعری میں کئی سینچریاں ماری ہیں۔ اب اردو میں کہیں تو سو مارے ہیں۔ یہ بھارتی اردو ہے جسے گیان چند جین ایک بھاشا مانتے ہیں۔ گیان چند زیادہ محقق تھے جین ذرا کم تھے۔ ان کے شہر بجنور کو روہیل کھنڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ روہیلہ سردار علی محمد خان کا بدلہ لینے کے لیے ایک کتاب بعنوان ایک بھاشا دو لکھاوٹ لکھنی پڑی۔
کرکٹر کو امپائر سے دشمنی نہیں مول لینی چاہیے۔ گیان چند نے اردو ادب سے ہی بدلہ لینے کی کوشش کی۔ ضروری نہیں کرکٹر کا بیٹا بھی کرکٹر ہی ہو، وہ کوشش ضرور کرتا ہے۔ ادیب کا بیٹا بھی ضروری نہیں ادیب ہی ہو، پھر بھی جانثار اختر کے بیٹے جاوید اختر کو سعی کرتے رہنا چاہیے۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا اور پچ تیز ہے یا سلو ہے دونوں کا مطلب ایک ہے۔ کرکٹ پر اگر کوئی صحیح محاورہ فٹ بیٹھتا ہے تو وہ ہے آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ کرکٹ ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں، اب غیرت کا زمانہ لد چکا۔
جیسے سویٹر جرسی پہن کر بھی کرکٹ کھیلنے کی اجازت ہے کیا پتہ سفید پتلون کوٹ میں بھی اجازت مل جائے۔ صبر کا پھل نہیں کرکٹ کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ عطااللہ عیسی خیلوی اگر کرکٹ پی ایس ایل کے لیے گیت گاتے تو ضرور تھیوا ایہہ مندری دا تھیوا کی طرز پر گاتے۔ شکر ہے کرکٹ ہمارے ملک میں دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ ویسے کرکٹ بھی نظم کی طرح ہے جو بقول ثروت حسین کہیں سے اور کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ جدید نظم شروع ہو تو اچھی لگتی ہے اور ختم ہو تو بہت ہی اچھی لکھتی ہے۔ ٹیسٹ میچ بھی ختم ہو تو بہت اچھا لگتا ہے۔
جیسے شاعر خارج از وزن شعر کہنے کا رسک نہیں لیتا امپائربھی غلط فیصلے سے متشاعر کا خطاب پا سکتا ہے۔ امپائر اور شاعر لگے بندھے ضابطوں سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتے۔ شاعر اور کرکٹر پیدائشی ہوتے ہیں۔ استاد شاعر اورا مپائراپنی محنت سے بنتے ہیں۔ کرکٹ ایک سلطنت ہے اس کا ترانہ ہونا چاہیے جو سارے ملکوں کی ٹیموں کے ترانوں سے بننا چاہیے۔ دو دو ہاتھ کا مظاہرہ، شاعر مشاعرے میں اور کرکٹر میدان میں کرتے ہیں۔ امریکہ ہر جنگ میں امپائر بن جاتا ہے اور غلط آوٹ دے کر جنگ کا پانسہ پلٹنے کا عادی ہے۔ شاعر روپے پیسے کے بغیر بھی خوشی سے مشاعرہ پڑھ آتا ہے اور اگر اسے سٹیج پر بٹھا دیا جائے (خواہ غلطی سے) تو تین چار مشاعرے اور مفت میں پڑھ دے گا۔ منیر نیازی مانتے ہی نہیں تھے کہ کراچی میں بھی کوئی شاعر ہے اسی لیے اب وہاں شاعر نہیں کرکٹرز کی کھیپ پر کھیپ نکل رہی ہے۔
منیر نیازی کا کہنا تھا میں کراچی گیا تو جون ایلیا خوشی سے درخت پر چڑھ گئے۔ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ہم نے ساری دنیا کا ادب پڑھا منیر نیازی بغل میں جاسوسی ڈائجسٹ رکھتے تھے شاعری سب سے اعلیٰ کر گئے۔۔ کو ئی شاعر کرکٹر نہیں بن سکا اور کوئی کرکٹر شاعر نہیں ہوا۔ شاعر نے چوکا مار کر داد طلب نظروں سے ناظرین کو دیکھنے لگ جانا تھا۔ امپائرعلیل ہونے کا خدشہ بھی مول نہیں لے سکتا۔ شاعر ہوتا ہی بیمار ہے۔ شاعری اور کرکٹ کا ریکارڈ ہمیشہ محفوظ رہتا ہے حالانکہ موخر الذکر کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہوتا۔ کرکٹر اور عاشق دیوانگی میں برابر کی چوٹ ہیں۔
شیر کی ایک دن کی زندگی اور امپائرکی ایک دن کی ایمپائرنگ بھی برابر ہو سکتی ہے۔ امپائر کی سلطنت چھوٹی ہوتی ہے مگر اس کے سامنے اپوزیشن ٹک نہیں سکتی۔ وراثت صرف منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ہوتی ہے ٹیلنٹ سب کا وارث ہوتا ہے۔ ٹیلنٹ کو خاندانی وراثت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ امپائر کو غصہ آئے تو وہ امپائر بننے کا اہل نہیں ہوتا۔ کرکٹر کا بلا ہمیشہ رنز نہیں اگلتا شاعر کی ہر نظم معرکہ آرا نہیں ہوتی۔