پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے ملک میں کورونا وائرس کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریوں کی وجہ سے وطن واپس آ کر سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ وطن واپسی پرمیاں شہباز شریف نے کہا کہ ملک بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے عفریت کو قابو کرنے کےلئے ایمرجنسی کا نفاذ ضروری ہوچکا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں ایمرجنسی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک بھر میں لاک ڈاؤن کیا گیا تو اس سے روزانہ کی اجرت پر کام کرنےوالے دیہاڑی دار بہت زیادہ متاثرہوں گے۔ لیکن وقت اورحالات کی نزاکت کسی اور ہی بڑے خطرے کا اشارہ دے رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اور خود وزیراعظم عمران خان اپنی ناقص حکمت عملی اور اقدامات کی وجہ سے دن بدن مشکلات کا شکارہوتی جا رہی ہے۔ بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ میاں شہبازشریف کی وطن واپسی معنی خیز ہے۔ تجزیہ کاروں کی نظر میں میاں شہباز شریف کا اچانک وطن واپس آنا عمران خان حکومت کو بہت سے خطرات سے دو چار کر سکتا ہے۔ شہباز شریف وطن واپس آئے نہیں بلکہ انہیں فوری طور پر وطن واپس پہنچنے کا گرین سگنل دیا گیا ہے۔ شہبازشریف کے بارے میں ان کے مخالفین بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ مشکل سے مشکل حالات پر کم سے کم وقت میں برق رفتار فیصلے کرتے ہیں جن کے اثرات براہ راست عوام کو نظرآتے ہیں۔ ڈینگی جیسے وبائی امراض ہوں یا دیگر انتظامی امور، شہباز شریف ٹھوس بنیادوں پر فیصلے کرتے اور شاندار نتائج دیتے ہیں لیکن کورونا جیسے مہلک وبائی مرض جس کی روک تھام کےلئے بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی سخت فیصلے لے رہے ہیں لیکن میرے نزدیک حکومت پاکستان لاپرواہی اور غفلت کی مرتکب ہورہی ہے جس کا خمیازہ ملک کے عوام کو بری طرح بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت نے ملک بھر میں جہا ں جہاں قرنطینہ سنٹرز بنائے ہیں وہاں پر کئے گئے ناقص انتظامات کی وجہ سے متاثرہ افراد فرار ہو کر ملک کے مختلف حصوں میں پھیل رہے ہیں۔ سرکاری ڈاکٹرز کورونا وائرس کے متاثرین کا علاج اور ٹیسٹ کرنے سے مسلسل انکار کررہے ہیں۔ اشیاءخوردونوش کی قلت کا خدشہ منڈلا رہا ہے مگر حکومت کے ناکافی اقدامات اور ٹوئٹس کرنے کا سلسلہ عوام کامنہ چڑا رہے ہیں۔ حکومت کورونا متاثرین کو کسی ایک مقام پر رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ایئرپورٹس اور ملک کے دیگر داخلی و خارجی راستوں کو بہت تاخیر سے آمدورفت کےلئے بند کیا گیا ہے اور تو اور افغانستان کو جانے والا راستہ محض اس وقت کھول دیا گیا جب کورونا کا جن بے لگام ہوچکا ہے۔ عوام کو محض احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔
ایسے حالات میں میاں شہباز شریف جیسے مضبوط قوت ارادی رکھنے والے اور بلا تاخیر فیصلے کرنےوالی شخصیت کی اشد ضرورت ہے۔ شہباز شریف کی واپسی کا بظاہر مطلب کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حکومت اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا ہے لیکن ان کی وطن واپسی کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی ناکامیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی ایسی مہم جوئی کا آغاز کریں جس کا نتیجہ عمران خان حکومت کی اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی کی صورت میں نکل آئے۔ میاں شہباز شریف کی پاکستان میں موجودگی کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی لازمی قرار دے چکے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے وہ عمران خان کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں۔ بلاول بھٹو، عمران خان کو اپنا وزیراعظم قرار دے چکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں شہبازشریف کا وطن واپس لوٹنا اس لئے بھی خوش آئند ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کے درمیان ہوں گے اور دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ عمران خان حکومت کیخلاف کسی ایسی تحریک کا حصہ بن جائیں گے جس سے ان کی حکومت کو گھربھیجا جا سکے۔ سیاسی پنڈت تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کی وطن واپسی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ کسی ایسے پلان یا منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوسکتا ہے جس پر چھ ماہ بعد کام کا آغاز ہونا تھا۔ بہرکیف قائد حزب اختلاف کی اچانک واپسی کے اصل محرکات کیا ہےں، آنے والے دن بہت اہم قرار دیئے جا رہے ہیں۔ شہباز شریف سمیت ن لیگ سے تعلق رکھنے والے بہت سے دیگراہم سیاسی رہنما بارہا واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی عبوری سیٹ اپ کا حصہ نہیں ہوں گے بلکہ نئے انتخابات ہی وقت کا تقاضا ہیں اس لئے مقتدر حلقے اب سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو کسی بھی طرح گھر بھیجنے کے انتظامات کیے جائیں۔ کوروناوائرس کے بڑھتے ہوئے خطرات سے پہلے مارچ کوپاکستان کے سیاسی منظرنامہ میں تبدیلی کےلئے اہم قرار دیا جارہا تھا لیکن موجودہ صورتحال کی وجہ سے پاکستان میں اب کورونا وائرس کے خاتمہ تک کوئی بڑی تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی لیکن تھینک ٹینک کب فیصلہ کن قدم اٹھا لیں اس کے متعلق حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔
میاں شہباز شریف کا وطن واپس آنا حکومت کےلئے کسی بھی صورت میں حوصلہ افزا نہیں لیکن یہ بات طے ہو چکی ہے کہ شہباز شریف نے ایک بار پھر اچانک وطن واپس آنے کا فیصلہ کر کے حکومتی صفوں کو حیران ہی نہیں بلکہ پریشان بھی کر دیا ہے۔ یقینی طور پر میاں شہباز شریف وطن واپس آنے کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا آغاز بھی کریں گے اور ملک کی دوسری اپوزیشن جماعتوں سے رابطے بھی بڑھائیں گے۔ مسلم لیگ ن کےلئے ایک اچھی اور حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ اعلی قیادت کی ملک میں موجودگی سے پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کے امکانات ختم ہو کر رہ جائیں گے۔ پارٹی مضبوط ہوگی اور کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور خواجہ برادران کی ضمانت پر رہائی سے بھی مسلم لیگ ن میں انتشار کا عمل تھم گیا ہے لیکن سب سے ضروری اوراہم نکتہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن سمیت ملک کی تمام قابل ذکر اپوزیشن جماعتیں کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے کےلئے اپنا اپنا کردار ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں کیونکہ یہ ملک کے وسیع ترمفاد میں ہوگا اور ہمیں شہباز شریف کی واپسی پر ان سے بھی بہت امید ہے کہ وہ ملک کے سرکردہ سیاستدانوں سے مل کر وبائی مرض کے خلاف اقدامات میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان اور یہاں کے عوام مشکلات سے نکالیں گے تو سب کچھ چلتا رہے گا۔ شہبازشریف سے یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے چینی حکام سے رابطہ کریں اور کورونا وائرس کی روک تھام کےلئے چین کی اپنائی گئی احتیاطی تدابیر اور تجربات سے استعفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ چین سے رابطہ کر کے ان سے تجاویز بھی حاصل کریں کہ چین کورونا وائرس سے متاثر ہونے والا سب سے پہلا ملک ہے اور چین نے جس عزم وہمت کے ساتھ کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑی ہے وہ بے مثال ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چین کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا لیکن اب جبکہ میاں شہباز شریف پاکستان واپس آ چکے ہیں تو ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ حکومت اور چین کے درمیان رابطے کا کردار ادا کریں گے اور قوم کو کورونا جیسے موذی مرض سے چھٹکارا دلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔