سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پچھلے کئی ماہ سے بہت سی پیچیدہ اور مہلک بیماریوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ عدالت کی طرف سے ضمانت اور حکومت کی اجازت سے لندن گئے تھے جہاں پر غیر ملکی ڈاکٹروں نے بھی ان کی بیماریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر معینہ مدت تک زیر علاج رکھنے کی تجویز دی تھی۔ میاں نوازشریف نے لندن میں بھی بارہا آپریشن کروانے سے انکار کیا لیکن چند روز قبل ان کی والدہ ہنگامی بنیادوں پر لندن پہنچیں اور انہوں نے اپنے بیٹے نوازشریف کو آپریشن کروانے پر راضی کرلیا ہے۔ 24 فروری کو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا آپریشن کرنے کی تاریخ رکھی گئی ہے لیکن نواز شریف نے آپریشن سے پہلے تحریری دستاویزات تیار کروائے ہیں جسے ان کی وصیت بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ نوازشریف نے اپنی وصیت میں خاندانی امور کو کیسے چلانا اور پارٹی معاملات کس کے دائرہ اختیار میں ہوں گے ان تمام ہدایات کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سی اہم شخصیات اور صحافیوں سے ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نوازشریف نے اپنی وصیت میں اپنی سیاسی جدوجہد، اقتدار سے جبری رخصتی اور اپنے دور حکومت میں ملک کےلئے انجام دی جانے والی خدمات ویڈیو پیکیج کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ میاں نوازشریف اپنی والدہ بیگم شمیم شریف کے بعد خاندان کے سربراہ تسلیم کیے جاتے ہیں اسی لئے ان کی وصیت کو شریف فیملی کےلئے بے حد اہمیت دی جا رہی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی اور سیاسی جانشین مریم نواز مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے بیانیہ پر عمل پیرا ہیں، اسی لئے مریم نواز سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنی خاموشی توڑنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ میاں نوازشریف اپنی طویل علالت کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاﺅ پر کسی قسم کی رائے زنی سے قاصر ہیں لیکن بہت سے ن لیگی حلقے مریم نواز اور میاں نوازشریف کی خاموشی کو ان کی مصلحت پسندی یا ڈیل کا نتیجہ قرار دینے کی تردید کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے صرف ایک ہی بات اور موقف سامنے آ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن این آر او لے گی نا کبھی ڈیل کا حصہ بنے گی۔ عمران خان حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ مریم نواز کو اپنے والد میاں نوازشریف کی تیمارداری کی غرض سے لندن بھجوانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ مریم نواز کو بعض مقتدر حلقوں کی وجہ سے بیرون ملک جانے نہیں دیا جا رہا ہے جو درحقیقت سابق وزیراعظم پر اپنی شرائط منوانے کے لئے دباﺅ بڑھا رہے ہیں۔ ان تمام تر اندازوں اور مفروضوں سے قطع نظر میاں نوازشریف کی جانب سے آپریشن سے قبل اہم شخصیات اور صحافیوں سے ملاقات کا اعلان ان کے کسی تہلکہ خیز اعلان سے کم نہیں ہے کیونکہ نوازشریف نے اپنی تحریری وصیت میں واضح کیا ہے کہ وہ آپریشن سے پہلے اپنے ساتھ پیش آنے والے تمام حالات و واقعات اور سیاسی نشیب وفراز سے پردہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنی بیٹی مریم نواز سے ملاقات کی خواہش بھی نواز شریف کے لئے کسی ناقابل برداشت اذیت سے کم نہیں ہے لیکن وہ انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ یہ تکلیف بھی برداشت کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اہلیہ کلثوم نواز کی وفات کے بعد نوازشریف کی دیکھ بھال جس انداز میں مریم نواز نے کی ہے اس کا حصہ دار بننے کا اہل خاندان میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔ پھر نوازشریف اس حقیقت کو بھی فراموش کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ مریم نواز نے اپنے والد کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے جیل کی صعوبتیں قبول کیں، نیب حراست میں رہیں، سیاسی جدوجہد میں بھی نوازشریف کا ساتھ دیا۔
نوازشریف کی وصیت میں مریم نواز کے سیاسی کردار پر بھی ہدایات تحریر کروائی گئی ہیں۔ پارٹی صدر میاں شہبازشریف، بیٹے حسن اور حسین نواز پہلے ہی سے نوازشریف کے پاس لندن میں موجود ہیں لیکن مریم نواز کی کمی کو نوازشریف شدت سے محسوس کر رہے ہیں اسی لئے انہوں نے مریم نواز کی جانب سے عدالت میں ای سی ایل سے ان کا نام نکالنے کی درخواست پر فیصلہ آنے میں تاخیر پر وصیت تحریر کروائی ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ آپریشن سے پہلے بعض سینئر پارٹی رہنما اور صحافی نوازشریف سے ملاقات کی غرض سے لندن جائیں گے جہاں پر وہ ان سے سیاسی امور پر بات چیت کریں گے۔ مریم نواز کی بیرون ملک روانگی میں تاخیر ہی کی وجہ سے نوازشریف کی والدہ کو لندن جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنے بیٹے کو آپریشن کے لئے راضی کیا۔ یہی ذمہ داری مریم نواز کو بھی انجام دینا تھی لیکن ابھی ان کے بیرون ملک روانگی عدالتی فیصلہ سے مشروط ہے۔ میاں نوازشریف کو پانامہ پیپرز آنے کے بعد اقامہ پر نا اہل کیا گیا اور بعد ازاں ان پر کرپشن، بدعنوانی، منی لانڈرنگ، بیرون ملک میں غیر قانونی جائیدادیں بنانے کے متعدد مقدمات بنائے گئے جن میں انہیں سزائیں بھی ہوئیں۔ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز احتساب عدالت سے فیصلہ آنے کے بعد اس وقت پاکستان واپس آئے جب برطانیہ میں بیگم کلثوم نواز زیر علاج تھیں اور اپنی آخری سانسیں گن رہی تھیں۔ وطن واپسی پر نوازشریف اور مریم نواز کو ایئر پورٹ پر ہی گرفتار کر کے جیل حکام کے حوالے کر دیا گیاتھا۔ میاں نوازشریف کو مطلع سیاست پر طلوع ہوئے تقریبا 35 برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ساڑھے تین دہائیوں پر مشتمل ان کی سیاسی زندگی کا یہ دور کامیابیوں، ناکامیوں، جدوجہد، مخالفت و مخاصمت، مفاہمت اور خود ساختہ جلا وطنی کے نشیب و فراز کا مرقع ہے۔ تاہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز ان کے پاس ایسا ہے جس کی کم از کم ہمارے ہاں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انہیں یہ امتیاز، اعزاز اور افتخار بھی حاصل ہے کہ وہ بحیثیت وزیراعظم پاکستان ایک مرتبہ بھی اپنی مدت اقتدار پوری نہیں کرسکے۔ ہماری عمومی زندگی میں کوئی بھی شخص عام طور پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا، اسی کے مصداق نوازشریف بھی یہ تسلیم کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئے کہ وزارت عظمی کے منصب جلیلہ سے یکے بعد دیگرے مبلغ تین مرتبہ ان کی معزولی اور محرومی کے پیچھے کہیں نہ کہیں ایک آدھ مرتبہ تو ضرور ان کی اپنی غلطی ہوگی۔ وہ مانیں یا نہ مانیں مگر یہ تو ایک حقیقت ہے ناں کہ انہوں نے وزارت عظمی کی مدت پوری کئے بغیر معزولی اور محرومی کی ہیٹ ٹرک مکمل کی ہے۔
نواز شریف کو پیچیدہ نوعیت کا دل کا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز نے بلا تاخیر دل کے آپریشن کی تجویز دے رکھی ہے لیکن نوازشریف تین مرتبہ آپریشن کروانے سے انکار کر چکے ہیں۔ اب آپریشن میں تاخیر نوازشریف کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اسی لئے والدہ کے مجبور کرنے پر نواز شریف آپریشن کروانے کےلئے تیار ہو گئے ہیں لیکن آپریشن سے پہلے شریف خاندان اور پارٹی معاملات کے حوالے سے نوازشریف کی وصیت انتہائی معنی خیز ہے۔