عالمی شہرت یافتہ Dr Thomas Frist نے 1960ء کی دہائی میں HCAہاسپٹل کارپوریشن آف امریکہ کی بنیاد رکھی جو کہ دنیا میں نجی شعبے میں لوگوں کو صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی کے لئے ایک مشن کے طور پر کام کرنے والا ادارہ بن کر ابھر۔ دنیا میں اپنا نام پیدا کر کے HCAنے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ پوری دنیا میں صحت کے شعبے میں اپنا منفرد مقام حاصل کر لیا اب امریکہ کے علاوہ برطانیہ میں بھی صحت کے شعبے میں HCAنے لندن میں Harley Street clinicکے نام سے اپنا ہسپتال قائم کر رکھا ہے یہ ہسپتال وسطی لندن میں چین کے سفارت خانے کے عقب اور بی بی سی ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے قریب ہی واقع ہے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر لندن کی مشہور زمانہ آکسفورڈ سٹریٹ بھی ہے یعنی یہ ہسپتال لندن کے انتہائی مہنگے علاقے میں ہے۔ ویسے تو اس ہسپتال میں نجی سطح پر علاج کروانا خاصا مہنگا ہے اس ہسپتال کا اہم شعبہ جو پوری دنیا میں اپنی منفرد حیثیت کی وجہ سے جانا جاتا ہے وہ امراض قلب کا شعبہ ہے اس شعبے میں دنیا کے چوٹی کے انتہائی قابل ڈاکٹرز کی ایک بڑی ٹیم موجود ہے برطانیہ اور امریکہ میں اس گروپ کے ہسپتالوں میں صحت کے شعبے میں علاج کے لئے اعلیٰ سطح کا نیٹ ورک موجود ہے جو کہ پوری دنیا کی VIP شخصیات اور امیر ترین لوگوں کو صحت کے شعبے میں خدمات پیش کرتا ہے۔ دنیا میں مختلف ممالک کے حکمرانوں، سربراہان مملکت اور سیاستدانوں کو اسی ہسپتال میں علاج معالجے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ یہ شخصیات اپنے علاج پر اس ہسپتال کو بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں۔ برطانیہ میں Harley Street Clinicواحد پرائیویٹ ہسپتال ہے جو کہ خاص طور پر امراض قلب کے مریضوں کے لئے بہترین علاج کا مرکز مانا جاتا ہے یعنی دل کے امراض کے تمام آپریشنز اسی ہسپتال میں دنیا کے چوٹی کے ڈاکٹرز کرتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی ہسپتال میں میاں نواز شریف نے بھی اپنا علاج کروایا اور وہ ابھی تک اسی ہسپتال کے زیر علاج ہیں اسحاق ڈار کے علاوہ پاکستان کی دیگر وی آئی پی شخصیات بھی اسی ہسپتال میں زیر علاج رہی ہیں۔
میں چونکہ خود عارضہ قلب کا مریض ہوں 2001ء میں میرا ٹرپل بائی پاس ہوا تھا اس کے بعد دوبارہ مختلف اوقات میں مجھے اپنے علاج کے لئے لندن کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہنا پڑا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے اور دریائے ٹیمز کے ساتھ St Thomasہسپتال جس میں مَیں گزشتہ سال زیر علاج رہا ہوں اسی ہسپتال کے شعبہ Interuentional Cardiology میں میری انجیو پلاسٹی ہوئی چونکہ میری دل کی شریانوں میں بلڈ سرکولیشن کم ہو رہی تھی اب اس کے بعد دوبارہ یہ مرض اور زیادہ بڑھ گیا ہے اسی دوران پورا برطانیہ Covid-19 کی لپیٹ میں چلا آ رہا ہے۔ اسی بنا پر پورے برطانیہ میں تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی صورت حال ہے اسی وجہ سے تمام ہسپتالوں میں جو کہ NHSکی زیر نگرانی کام کرتے ہیں ان میں ہر طرح کے آپریشنز روک دیے گئے ہیں تاکہ شدید نوعیت کی بیماریوں سے دوچار مریضوں کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھا جاسکے اب NHSنے اپنے ان مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں میں ریفر کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہی صورت حال میرے ساتھ بھی تھی لیکن بطور برطانوی شہری میری یہ خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس ہسپتال میں علاج کیلئے بھیج دیا گیا یقین کریں کہ اس ہسپتال کی Cardiology میں جس ٹیم نے میرا علاج کیا یہ وہی ٹیم ہے کہ جو میاں نواز شریف کا بھی علاج کرتی رہی ہےDr Oliver guttmann جو کہ جرمن نژاد ہیں انہوں نے میرا پروسیجر کیا یعنی میری انجیو گرافی کا پورا عمل اسی ڈاکٹر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ سرانجام دیا۔
انجیو گرافی کے بعد ڈاکٹر oliverنے بتایا کہ بدقسمتی سے میری تین شریانے مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں صرف ایک شریان کام کر رہی ہے اس طرح کی صورت حال میں نہ تو انجیو پلاسٹی ممکن ہے اور نہ ہی اس وقت اوپن ہارٹ سرجری ممکن ہے وقتی طور پر کسی طرح کا بھی پروسیجر انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لیکن ڈاکٹر oliverکے مطابق اب دیگر cardiology consultantsسے ہنگامی طور پر مشورہ کیا جائے گا کہ اب کیا پروسیجر اختیار کیا جائے یہ تمام عمل چند دنوں میں مکمل ہو جائے گا۔ دیکھ لیں کہ ایک شریان اپنا کام کر رہی ہے اور دل ابھی بھی زندہ ہے اور ہمیشہ پاکستان کے تابناک مستقبل کے لئے ہر وقت دھڑکتا ہے۔ بے شک ہم برطانوی شہری ہیں مگر ہماری پہچان پاکستان ہے یہ ہماری دھرتی ہے۔ کاش کہ اس پاک سرزمین کے حکمرانوں کو کم از کم اتنا تو خیال آ جائے کہ اس سرزمین کے عوام سے ووٹ تو لیتے ہیں مگر ان کو ان کی بنیادی سہولتیں ہی فراہم نہیں کر تے کیا عام آدمی پاکستان کے ہسپتالوں میں اپنا علاج کروا سکتا ہے؟ حکمران اپنا علاج برطانیہ اور امریکہ آ کر بھاری سرمایہ خرچ کر کے کرواتے ہیں مگر کیا مملکت پاکستان اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے موت اور زندگی کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے آخر موت تو آنی ہے انسانی اپنی زندگی کے اس سفر میں بعض اوقات بیماریوں کا سامنا کرتا ہے اگر مملکت لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے اور خود حکمران خاندان برطانیہ اور امریکہ آ کر اپنا علاج کرواتے ہیں تو پھر ان کا رشتہ عوام کے ساتھ کیا رہ جاتا ہے؟ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی خاندان اپنی دھرتی چھوڑ کر دیار غیر میں آ کر کیوں آباد ہوئے؟ سوچنے کا مقام ہے، اگر پاکستان میں دولت چند خاندانوں کے ہاتھوں میں نہ ہو حکومت پر چند خاندانوں کا مافیا قابض نہ ہو تو کوئی بھی پاکستان کا شہری سمندر پار جا کر آباد نہ ہو گا۔
Dr oliver guttmann اور dr graham cole نے مسکراتے ہوئے میرے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ جناب نواز شریف ہمارے زیر علاج رہے ہیں اور ان کے علاوہ بے شمار پاکستان کی اعلیٰ شخصیات بھی اسی ہسپتال میں اپنا علاج کرواتی ہیں میں نے ان ڈاکٹرز کو بتایا کہ میں NHSکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میرا علاج بھی اسی ٹیم سے کروایا گیا ہے جو کہ ہمارے حکمرانوں کا علاج کرتی ہے کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم اپنے حکمرانوں کے ساتھ پاکستان میں بھی پاکستانی ہسپتالوں میں علاج کروانے کے قابل ہو سکیں؟ تاکہ اپنی دھرتی چھوڑ کر کسی کو بھی باہر جانے ضرورت نہ پڑے۔ یہ ہم سب کو سوچنا چاہیے۔