برطانیہ میں برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ(BFI)کا شعبہ نیشنل آرکائیو ARCHIVE دنیا کا سب سے بڑا فلم آرکائیو ہے جو نیشنل فلم لائبریری کے نام سے 1935ء میں قائم ہوا تھا۔ 1992ء تک یہ نیشنل فلم آرکائیو ہی رہا لیکن پھر بعد میں 2006ء میں اسے نیشنل آرکائیو بنا دیا گیا اب اس آرکائیو میں دنیا بھر کی تاریخی اور نایاب فلمیں جن میں اب ٹی وی کی دستاویزی فلمیں اور دیگر پروگرام شامل ہیں بھاری تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد یکم فروری 1961ء کو برطانوی ملکہ الزبھ دوم اور ان کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا قیام پاکستان کے بعد یہ کسی برطانوی حکمران کا پہلا دورہ پاکستان تھا اس دورے کے بعد ملکہ برطانیہ بھارت کے دورے پر روانہ ہوئیں۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد نومبر 1966ء میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا اس دورے کی دعوت خصوصی طور پر ملکہ برطانیہ نے دی تھی اس تاریخی دورے کی مکمل فلم اب BFI نے انٹرنیٹ پر ریلیز کر دی ہے اس فلم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی دنیا میں کیا اہمیت تھی اور پھر مملکت پاکستان کے سربراہ کو کس قدر عزت و احترام اور بھر پور پروٹوکول فراہم کیا جاتا تھا۔ لندن میں ملکہ برطانیہ اپنے شوہر کے ہمراہ خود فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا پرتپاک استقبال کرتی ہیں برٹش فوج کے جوان صدر پاکستان کو سلامی پیش کرتے ہیں اور گارڈ آف آنرز پیش کیا جاتا ہے۔ لندن کے علاوہ صدر پاکستان کو سکاٹ لینڈ کا دورہ کروایا جاتا ہے برطانیہ کی ملکہ کی سرکاری ٹرین کے ذریعے وہ سفر کرتے ہیں۔ گلاسگو، مانچسٹر اور دیگر شہروں کے علاوہ انتہائی اہم مقامات پر صدر پاکستان کو برطانوی فوجی حکام دورہ کرواتے ہیں لندن کی اہم شاہراہوں کو پاکستانی اور برطانوی جھنڈوں سے سجایا جاتا ہے حتیٰ کہ ملکہ برطانیہ الزبھ دوم اپنے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ کے ہمراہ شاہی بگھی میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو لے کر لندن کی اہم شاہراہوں سے گزرتی ہیں۔
پیلس میں صدر پاکستان کے اعزاز میں ملکہ برطانیہ عشائیہ دیتی ہیں۔ گو کہ صدر پاکستان فوجی جنرل تھے اور وہ مارشل لاء کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے اس کے بعد وہ صدر مملکت بنے مغربی ممالک میں صدر پاکستان کو جو عزت و احترام ملا اس کی اصل وجہ ان کی وہ قومی خدمات تھیں جن کے تحت پاکستان نے اس پورے دور میں ریکارڈ ترقی کی پاکستان کا ہر شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن تھا سیاسی طور پر یقینا کرپشن تھی مگر قومی ادارے اس قدر نہ تو غیر فعال تھے اور نہ ہی بدعنوانی کا کوئی عنصر منظر عام پر آیا تھا۔ 1968ء میں صدر ایوب خان کے عہد اقتدار کے نو سال مکمل ہوئے تو پورے ملک میں جشن عشرہ، اصلاحات منایا گیا اس موقع پر بنکاری، زراعت، آب پاشی، ریلوے، جہاز رانی، صنعت و حرفت، سیاحت و ثقافت، آئین اور نظم و نسق کے جملہ شعبوں میں تعمیر ترقی کے تفصیلی نقوش پورے ملک میں اجاگر کئے گئے۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی ٹرین بھی چلائی گئی تھی جو کہ پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے عوام کو آگاہی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوئی، اس پورے دور کو دس سالہ دور ترقی کا نام دیا گیا تھا اصل حقیقت بھی یہ ہے کہ اس دور میں یقینا ریکارڈ سطح کی ترقی ہوئی اور ملک میں صنعتی پہیہ رواں دواں تھا۔ بیرون ملک پاکستان کو زرعی اور صنعتی شعبے میں ابھرتا ہوا ملک قرار دیا جانے لگا تھا۔
پی آئی اے کی ہی مثال لے لیں متحدہ عرب امارات اور مالٹا کی ایر لائنز کو بنانے میں پی آئی اے کا کلیدی کردار تھا اس دور میں 22 خاندانوں کا تذکرہ ضرور ہوتا تھا مگر پھر بھی قومی دولت کم از کم محفوظ ہاتھوں میں تھی کرپشن برائے نام تھی۔ بدترین خاندانی آمریت کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ نسل درنسل حصول اقتدار کی ہوس بھی نہ تھی۔ سیاسی جماعتوں میں آپس کے اختلافات ضرور پائے جاتے تھے لیکن سیاست میں عزت و احترام اپنی جگہ برقرار ہوا کرتا تھا۔ سیاستدانوں پر مالی کرپشن کے الزامات نہ ہونے کے برابر تھے لوٹ مار اور اقربا پروری کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس پورے عمل میں دلچسپ امر یہ ہے کہ جن تمام سیاستدانوں پر پابندی عائد ہوئی ان پر کسی بھی قسم کے نہ تو مالی بے ضابطگیوں کے الزام تھے نہ ہی وہ کسی قسم کی دوسری کرپشن میں ملوث تھے قومی خزانے میں خیانت کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے ملک میں جمہوریت تو ہے جیسی بھی ہے دوسری جانب خود سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے خاندانی آمریت ہر سیاسی جماعت میں موجود ہے اور پھر ساتھ ہی جن سیاسی جماعتوں نے ماضی میں حکمرانی کی ہے وہ پوری طرح کرپشن میں ملوث ہیں یعنی دوسابقہ حکمران جماعتوں کے قائدین جو کہ خاندانی آمریت سے پہچانے جاتے ہیں وہ ہر طرح سے مالی بدعنوانیوں میں ملوث پائے گئے ہیں پوری دنیا جانتی ہے مغربی اخبارات میں ان کی لوٹ مار اور قومی خزانے میں خیانت کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹس اور پورے پورے صفحے کے فیچر شائع ہو چکے ہیں بینظیر بھٹو سے شروع ہو جائیں۔
میاں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور آصف علی زرداری یہ سب سرکاری دورے پر برطانیہ آتے رہے ہیں۔ محض دو تین گھنٹوں پر محیط ملاقات برطانوی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10ڈائوننگ سٹریٹ پر برطانوی وزیر اعظم کرتے رہے ہیں شاید ہی کبھی کسی کو اعلیٰ سطح کا پروٹوکول برطانوی حکومت نے دیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو ضرور بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ نے چائے پر بلایا تھا باقی کسی بھی وزیر اعظم کو نہ تو اعلیٰ سطح کا پروٹوکول دیا گیا اور نہ ہی ان کے سرکاری دوروں کی کوئی اہمیت ہی ہوتی تھی کیونکہ برطانوی حکومت اور برطانوی ادارے یہ جانتے ہیں کہ ان کی جائیدادیں اور اثاثے برطانیہ میں ہیں اور یہ ان سرکاری دوروں کو اپنے نجی مالی امور کی غرض سے سفارتی ذرائع استعمال کر کے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف اب لندن میں موجود ہیں تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں وہ اپنے سمدھی اسحاق ڈار اور اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ BFIکی وہ فلم ضرور دیکھیں کہ جس میں پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دورہ برطانیہ کے بارے میں مکمل تفصیل موجود ہے گو کہ یہ 1966ء کی دہائی کی بات ہے اس پر غور کریں کہ ایک وہ وقت تھا کہ دنیا پاکستان کو اور ان کے سربراہ کو اتنی عزت دیتی تھی آج آپ برطانیہ میں برطانوی حکومت کے رحم و کرم پر ہیں۔