Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Guzre Dino Ki Yadein

Guzre Dino Ki Yadein

قیام پاکستان کے بعد پورا خاندان مختلف حصوں میں تقسیم ہو کر جالندھر (دھوگڑی) سے پاکستان آیا۔ لودھی پٹھان جن میں برکی، نیازی اور ککے زئی خاندان پاکستان کے جن شہروں میں آ کر آباد ہوئے ان میں لاہور، راولپنڈی اور لائل پور(فیصل آباد) کے علاوہ ملتان، ساہیوال اور پھر اوکاڑہ کے ملحقہ گائوں شامل تھے ان خاندانوں کے زیادہ تر لوگ ملازمت پیشہ تھے یعنی فوج، پولیس، ریلوے اور دیگر حکومتی اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہوئے۔ والد محترم حبیب خان لودھی مرحوم قیام پاکستان سے قبل بھی ریلوے میں ملازم تھے بعد میں پاکستان آ کر پاکستان ریلوے میں ایک طویل عرصہ تک سٹیشن ماسٹر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے اور پھر چیف کنٹرولر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ جالندھر(دھوگڑی) میں لودھی خاندان کا اپنا"بنک پٹھاناں " تھا اور خاندان کی جالندھر میں جائیدادیں اور بے شمار اثاثے تھے۔ ہمارا خاندان لائل پور(فیصل آباد) آ کر آباد ہوا اور اس شہر کے کچہری بازار سے ملحقہ محلے میں گلی وکیلاں میں قیام پذیرہو ا، اسی جگہ میری پیدائش بھی ہوئی چونکہ والد محترم ریلوے میں تھے لہٰذا وہ مختلف ریلوے سٹیشنوں پر بطور سٹیشن ماسٹر تعینات رہے جن ریلوے سٹیشنوں پر بچپن گزرا ان میں گھوٹکی، میسر، دھابیجی، کوٹ ادو، کلور کوٹ، چنی گوٹھ، مبارک پور، لیاقت پور، شیر شاہ اور ملتان کے علاوہ لائل پور(فیصل آباد) شامل ہیں زیادہ تر ان سٹیشنوں میں پرائمری سکول ٹاٹ والے ہوتے تھے ان سکولوں میں پرائمری تعلیم حاصل کی۔ والد صاحب کا پسندیدہ اخبار "پاکستان ٹائمز" ہوا کرتا تھا ان دنوں پاکستان میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کی حکومت تھی ریلوے میں اس دور میں حکومت امریکہ کی جانب سے تحفے میں دیے گئے ریلوے انجن استعمال ہوتے تھے جن پر امریکہ اور پاکستان کی دوستی کا مخصوص نشان دونوں کے جھنڈوں کے ساتھ بنایا گیا تھا کرکٹ ٹسیٹ میچ کی کمنٹری ٹرانسسٹر ریڈیو پر سننا اور شطرنج کا کھیل والد صاحب کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

اخبار پاکستان ٹائمز ہر روز جو کہ صبح سویرے شائع ہوتا تھا وہ ہمیشہ رات کو پسنجر ٹرین کے ذریعے ملتا یہ وہ وقت ہوتا تھا کہ جب ہم بہن بھائی یعنی میری بڑی ہمشیرہ صوفیہ باجی مرحوم میرے چھوٹے بھائی طارق مرحوم کو والد صاحب گھر میں ریلوے کی لالٹین روشنی میں پڑھا رہے ہوتے تھے جیسے ہی کانٹے والا پاکستان ٹائمز دے کر جاتا تو پھر ہمیں اس اخبار کے ایڈیٹوریل کی املا لکھوائی جاتی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے غیر ملکی دوروں کے بارے میں تفصیل سے بتایا جاتا۔ ہمارے گھر باقاعدگی سے پاکستان ٹائمز کا آنا خاص طور پر میرے لئے ملکی اور غیر ملکی سیاست کے علاوہ ملک کی صحافت میں دلچسپی کا باعث بنا جو کہ بعد میں کالج اور یونیورسٹی سطح تک صحافت میں میرے لئے راستے ہموار کرتا چلا گیا اس دور میں گو کہ صحافت پر پریس ٹرسٹ آف پاکستان کا کنٹرول ہوا کرتا تھا مگر پھر بھی سیاست میں ایک اعلیٰ معیار تھا۔ سیاستدانوں کا احترام تھا ایک دوسرے کا رکھ رکھائو اور پاکستان کے قانون کا احترام کیا جاتا تھا گو کہ یہ مارشل لاء کا دور تھا مگر پھر بھی پوری دنیا میں جنرل ایوب خان مرحوم اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا عالمی سیاست میں ایک منفرد مقام تھا۔ مختلف ریلوے سٹیشنوں میں رہتے ہوئے ہمیشہ گھر میں اعلیٰ نسل کی بھینس رہی جو کہ والد محترم کا شوق تھا گرمیوں کے موسم میں جب بھی آم کی فصل تیار ہوتی والد صاحب اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو آموں کی ٹوکریاں ضرور بھجواتے۔ ہم سب بہن بھائیوں کو کانٹے والا سکول بھی چھوڑ کر آتا اور پھر چھٹی کے وقت سکول سے لینے بھی آتا، اکثر اوقات چھوٹے چھوٹے ریلوے سٹیشنوں میں قیام کے دوران بڑے بڑے زمینداروں اور وڈیروں سے بھی خاندانی روابط ہوتے تھے ان علاقوں میں کبڈی کے میچوں میں سٹیشن ماسٹر کو بطور مہمان خصوصی بلایا جاتا تھا یعنی ان علاقوں میں ریلوے کے ملازمین کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ کسی طرح سے بھی کسی کرپشن کا کوئی وجود نہ تھا۔

صدر مملکت اکثر تیز گام اور خیبر میل کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی جاتے تھے ان ٹرینوں میں وی آئی پی سیلون لگایا جاتا تھا اور مناسب سکیورٹی بھی ہر سٹیشن پر ہوتی تھی۔ اسی طرح مرکزی وزراء اور صوبائی وزراء بھی ٹرینوں ہی کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ سال میں ایک مرتبہ لاہور ہیڈ کوارٹر سے جی ایم سپیشل ٹرین ان سٹیشنوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ضرور آتی تھی۔ ریلوے ملازمین کو گرمیوں اور سردیوں کی یونیفارم بھی باقاعدگی سے فراہم کی جاتی تھی۔ مال گاڑیوں کی آمدورفت اور پسنجر ٹرینوں کا وسیع نیٹ ورک ہوا کرتا تھا۔ ریلوے سٹیشنوں کی دیکھ بھال ہر طرح سے کی جاتی تھی۔ ریلوے ملازمین کو صحت کی سہولتیں برابر فراہم ہوتی تھیں لاہور، ملتان، راولپنڈی اور کراچی میں ریلوے کے ہسپتال ریلوے ملازمین کے لئے دن رات کام کرتے تھے اکثر ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز سٹیشنوں پر لازمی طور پر لائبریریز اور کھیل کے میدان بھی موجود ہوتے تھے یہ گئے دنوں کی یادیں ہیں لیکن اب کیا ہے وہ پاکستان ریلوے رہی ہی نہیں دکھ ہوتا ہے ان چھوٹے سٹیشنوں کی حالت زار جان کر، اکثر برانچ لائنز پر پسنجر اور مال گاڑیوں کا نیٹ ورک بند ہو چکا ہے اکثر جگہوں پر ریلوے ٹریک بھی غائب ہو چکے ہیں۔ برانچ لائنز پر اگر ریلوے نیٹ ورک دم توڑ رہا ہے تو پھر اگر پاکستان میں ہنگامی صورت حال پیش آ جاتی ہے تو کیا پاکستان ریلوے اس قابل ہو گا کہ فوجی نقل و حمل میں فعال کردار ادا کر سکے؟

لندن کے ٹرانسپورٹ میوزیم میں قدیم دور کی ریلوے کے بارے میں چیزیں رکھی گئی ہیں ان میں پاکستان کے چھوٹے چھوٹے ریلوے سٹیشنوں میں استعمال ہونے والی ٹیلی فون، سگنل، وزن کرنے والا کانٹا اور لالٹین اور دیگر سامان موجود ہے جو کہ ابھی تک پاکستان میں ان چھوٹے سٹیشنوں میں زیر استعمال ہے پاکستان ریلوے میں خدمات سرانجام دینے والے بوڑھے انگریز اب بھی برطانیہ کے مختلف شہروں میں موجود ہیں ان کی یادداشت اب بھی قائم ہے حیرانی ہوئی کہ ایک انگریز بوڑھے کو ڈیرہ نواب صاحب اور بہاولپور سٹیشن کے بارے میں سب کچھ یاد ہے۔ حتیٰ کہ وہ نواب آف بہاولپور کے ریلوے سیلون کو اب بھی یاد کرتا ہے جو کہ ڈیرہ نواب صاحب کے ریلوے سٹیشن پر موجود تھا وہ اچھی طرح سمہ سٹہ یارڈ، مبارک پور اور ٹبی کے فلیگ سٹیشن کو بھی یاد کرتا ہے۔ گزرے دنوں کی یادوں کو تازہ کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ خدارا پاکستان ریلوے کے پورے نظام پر توجہ دی جائے۔ ہنگامی حالات میں ریلوے نیٹ ورک اہم کردار ادا کرتا ہے۔