Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Qaumi Idaron Ki Tashkeel Aur Unki Karkardagi

Qaumi Idaron Ki Tashkeel Aur Unki Karkardagi

افواج پاکستان واحد ادارہ ہے کہ جس میں ڈسپلن اور اعلیٰ کارکردگی کا معیار مثالی ہے۔ اس ادارے کا اپنا احتساب کا نظام ہے اور پھر میرٹ اور قابلیت اس ادارے کی اولین ترجیح ہوتی ہے اسی بنا پر آج افواج پاکستان کو دنیا کی بہترین فورسز میں شمار کیا جاتا ہے۔ افواج پاکستان کا منظم اور مضبوط ادارہ ریاست پاکستان کے دیگر اداروں کے لئے مثال ہے۔ سویلین ادارے اگر اس ادارے کے ڈسپلن اور میرٹ کی پالیسی کو اپنائیں تو پاکستان ہر سطح پر اپنا مقام بلند کر سکتا ہے کرپشن کا خاتمہ من پسند افسران کی تقریری اور پھر مخصوص سیاسی گروپس کی اجارہ داری بھی ختم ہو سکتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی اداروں میں میرٹ کی پالیسی اور کڑا احتساب معاشرے میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ ماضی میں پاکستان چار مرتبہ مارشل لاء ادوار سے گزرا۔ یہ نوبت کیوں آئی؟

اس کی اصل وجوہات کیا تھیں؟ کن سیاسی رہنمائوں کی غلطیوں کی وجہ سے بار بار مارشل لاء کا نفاذ ہوا؟ ان ادوار کی تاریخ میں بے شمار پوشیدہ سوالات ہیں جو کہ ابھی تک جواب طلب ہیں جمہوری نظام بار بار کیوں ناکام ہوتا رہا؟ سیاستدان اپنے اپنے ذاتی مفادات کی جنگ کیوں لڑتے رہے؟ حالت یہ ہے کہ پورا پاکستان اب کرپشن کی لپیٹ میں ہے پورا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ قدرتی آفات، قومی ترقیاتی منصوبے اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر موقعہ پر افواج پاکستان ہی نے قومی فریضہ ادا کیا ہے۔ فوجی افسران ایک کیڈٹ کی حیثیت سے فوج میں شمولیت اختیار کرتے ہیں کاکول اکیڈمی میں ان کی تربیت ہوتی ہے دنیا کی بہترین تعلیمی، اخلاقی نفسیاتی اور جسمانی تربیت میں کامیابی کے بعد ان کیڈٹوں کو یونٹوں میں ڈیوٹی پر مامور کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ آفیسرز کچھ عرصےبعد امتحان دیتے ہیں اور پرموٹ ہو کر لیفٹیننٹ بن جاتے ہیں اس دوران کورس کرتے ہیں کیپٹن بن جاتے ہیں۔

کیپٹن کا عہدہ بھی بڑا اہم ہوتا ہے۔ اگلا مرحلہ میجر بننے کا ہوتا ہے اس طرح پرموشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوتا ہے اس مرحلے پر تقریباً اسی فیصد آفیسر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ ْفوج میں میجر کے بعد سیکشن رینک شروع ہوتا ہے جو کہ پاکستان سٹاف کالج میں ان افسران کو انتہائی سخت کورس کروانے کے مرحلے سے گزارتا ہے سابق ریکارڈ اور اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر ترقی کے مزید مواقع میسر آتے ہیں۔ ان افسران کے کردار پر کوئی دھبہ، کوئی داغ نہ ہو تو پھر ان کو لیفٹیننٹ کرنل پرموٹ کر دیا جاتا ہے اب چھ سات سال تک انتہائی سخت سروس کے بعد فوجی بورڈ ان افسران کی ترقیاں کرتے ہیں یعنی اب بریگیڈیئر کا رینک شروع ہوتا ہے اس کے بعد میجر جنرل کے عہدے پر کامیاب افسران کو پرموٹ کیا جاتا ہے اس کے بعد فوجی افسران اپنی قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت لیفٹیننٹ جنرل بنتے ہیں اس انتہائی اہم عہدے کے بعد فل جنرل بننے والے افسر فوج کی کمان کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔

فوج میں جنرل کے عہدے تک رسائی حاصل کرنے کے لئے فوجی افسران کو جن مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے یہ مرحلے انتہائی سخت ہوتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں ریٹائر فوجی افسران کو سیاسی حکومتوں میں انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے حتیٰ کہ برطانیہ کے ہائوس آف لارڈ میں فوجی جرنیلوں، ایڈ مرل، اور ایئر مارشل کو باقاعدہ لارڈ بنا کر ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ان افسران کے ماضی کے تجربات سے استفادے کے لیے سیاسی حکومتیں اپنی حکومتوں میں ان کی مشاورت کو ترجیح دیتی ہیں۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے خطے کی جو صورتحال ہے اس کے پیش نظر پارلیمنٹ اور خود حکومت میں اسی طرح کے تجربہ کار فوجی افسران کی ضرورت ہے جو کہ اپنے ماضی کے تجربات کی بنا پر سیاسی اور جمہوری حکومت کو ان کی پالیسیوں میں اپنی رائے دے کر موجودہ نظام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ویسے تو ریٹائر سفارت کار اور سینئر بیورو کریٹس اور ماہر معاشیات بھی حکومت کو اپنی خدمات پیش کر دیں تو یقینا موجودہ حالات میں خاص بہتری آ سکتی ہے۔

سوچنے کا مقام ہے کہ جس نظام کے تحت افواج پاکستان دنیا کی کامیاب ترین اور ناقابل شکست فوج بن چکی ہے یہ نظام ہمارے سول اداروں کا مقدر کیوں نہیں بدل سکتا؟ افواج پاکستان کی کمانڈ صرف ایک ایسے قابل فوجی جرنیل کے سپرد کی جاتی ہے کہ جس نے اپنے کیریئر کا آغاز آرمی ریکروٹمنٹ سنٹر کی کسی امتحان گاہ سے کیا ہوتا ہے تو پھر سول اداروں کی سربراہی اسی ادارے کے کسی اعلیٰ کارکردگی والے آفیسر کو کیوں نہیں سونپ دیتے؟ جس طرح اس وقت پورے پاکستان کے قومی اور صوبائی ادارے عوام میں نہصرف اپنا اعتماد کھو چکے ہیں بلکہ ان اداروں میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ یاد رکھیے کہ جب کسی بھی ملک میں قومی ادارے مفلوج ہو جائیں اور سیاسی شخصیات کے تابع رہ کر اپنا کام کریں گے اور پھر کرسی انصاف اور کمرہ عدالت کی طرف انگلی اٹھ جائے تو اس ملک کا باقی کچھ بھی نہیں بچتا ہمیشہ انصاف فراہم کرنے والی عدالتیں سیلابوں کا آخری پشتہ ہوا کرتی ہیں اگر وہ ٹوٹ جائے تو پھر پوری کی پوری بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ عدالتوں میں مخصوص خاندانوں کو بھر پور ریلیف فراہم کرنا اور عام لوگوں کی کسی بھی جگہ داد رسی کا نہ ہونا خود ریاست کے لئے خطرناک ہے پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی سیاستدان، صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا کسی وزیر نے کسی سرکاری ہسپتال سے اپنا علاج کروایا، کبھی کسی VIPنے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا ذرا یہ بھی دیکھیں کہ جن کو ہم عوام کے خادم کہتے ہیں ان کی اور ان کے خاندانوں کی ذاتی سکیورٹی پر قومی خزانے سے کتنا خرچ کیا جاتا ہے ان کی حفاظت کے لئے پولیس اور دیگر سکیورٹی کے اہلکاروں کی لگائی گئی ڈیوٹیوں کی تفصیل وزارت داخلہ کے ریکارڈ سے دیکھ لیں۔

کبھی یہ بھی کسی نے اندازہ لگایا کہ ہمارے اعلیٰ بیورو کریٹس اور ہمارے وزراء اور پھر عوامی نمائندوں کے غیر ملکی بینکوں میں اکائونٹس کیوں ہیں؟ ملک میں اس وقت تقریباً 129کے قریب سیاسی جماعتیں اور لگ بھگ چار ہزار کے قریب لیڈر حضرات ہیں کیا ان لیڈروں میں کوئی لیڈر ایسا ہے جو کہ دعویٰ کر سکے کہ وہ قومی سطح کا لیڈر ہے اور وہ عوام میں بھر پور مقبولیت اس بنا رکھتا ہے کہ وہ ایماندار اور دیانتدار ہے عمران خان کو عوام ان کی ایمانداری اور دیانت داری کی بنا پر اور کرپشن کے خاتمے کے لئے اقتدار میں لائے تھے اب آنے والے سال ان کے اقتدار کے لئے فیصلہ کن ثابت ہونگے دیکھنا یہ ہے کہ اب قومی ادارے ان کی قیادت میں ملکی نظام میں کیا تبدیلی لاتے ہیں۔