ایک طویل عرصے سے بیورو کریسی کی جس فصل کو ہمارے سیاستدانوں نے کاشت کیا تھا اب اس کا پھل پوری قوم کھا رہی ہے اس پھل کے کھانے سے جو بیماریاں پھیل رہی ہیں یہ خطرناک حد تک موذی مرض کی شکل اختیار کر کے کینسر کی صورت میں پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ان فصلوں کی آبیاری میں خاص طور پر ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری نے اہم کردار ادا کیا ہے دراصل یہ دونوں خاندان لمیٹیڈ کمپنیاں اپنے سایے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی موروثی سیاست کو پروان چڑھاتی رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ فرسودہ نظام ہے۔ بدقسمتی اب یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے پورا ملک ابھی تک غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بلا شبہ یہ کیا دھرا 40 سال پر محیط فرسودہ نظام کا نتیجہ ہے جو کہ سابق حکمرانوں نے ایک کرپٹ مافیا کی شکل میں مسلط کر رکھا تھا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ 3سال میں یکدم اس کرپٹ نظام کی جڑیں ختم کرنا ناممکن سی بات ہے۔ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے پاس اکثریت نہیں ہے قانون سازی کس طرح ممکن ہے؟ کرپشن کے خاتمے کے لئے سخت قوانین درکار ہیں، حالت یہ ہے کہ اس ضمن میں نہ تو قانون سازی ہو پا رہی ہے اور نہ ہی احتساب اور شفاف انتخابات کے لئے اصلاحات کا عمل مشاورت کے بعد اپوزیشن کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر طے ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب اپوزیشن کی اکثر شخصیات کرپشن کےمقدمات میں ملوث ہوں تو پھر مشاورت کس طرح ممکن ہے؟ بلا شبہ پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے قومی سطح کی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے مہنگائی کے اس دور میں بھی عمران خان اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں قومی سطح کے سیاسی رہنمائوں میں یہ اپنا منفرد مقام بنا چکے ہیں۔
منفرد حیثیت اس بنا پر کہ یہ نہ تو کسی سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ کسی موروثی سیاست کا حصہ ہیں کھیل کے میدان سے چیرٹی میں آئے کینسر ہسپتال بنایا اور پھر عملی سیاست تک کا سفر ان کو عوامی مقبولیت کی سطح پر لے آیا، کرپشن کے خلاف تحریک ہی نے ان کو مزید مقبولیت سے ہمکنار کیا دوسری وجہ یہ بھی کہ عمران خان پر کسی قسم کی کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں ہے، لیکن عمران خان نے ابھی تک اپنی جماعت میں اپنا متبادل کوئی قابل ذکر لیڈر پیدا ہی نہیں کیا اور نہ ہی سکینڈ سطح کی لائن میں کوئی لیڈر ابھر کر سامنے آیا ہے یقینا جماعت میں مراد سعید، علی محمد خان، ولید اقبال، حماد اظہر جیسے نوجوان نظریاتی کارکن پارٹی کی صفوں میں اپنا مقام بنا رہے ہیں۔
شفقت محمود اور شبلی فراز بھی مسٹر کلین کی حد تک جماعت کا سرمایہ ضرور ہیں، جماعت میں شیریں مزاری، عندلیب عباس، کنول شازیب، ملائیکہ بخاری اور زرتاج گل جیسی ٹیلنٹٹ خواتین نے بھی جماعت میں اپنی جگہ بنا لی ہے، ثانیہ نشتر ذھین اور قابل خاتون ہیں ان کی بطور مشیر بہتر کارکردگی رہی ہے، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال عمران خان کی کابینہ کا حصہ ضرور ہیں مگر وابستگی پی ٹی آئی سے وہ نہیں جو کہ نظریاتی کارکنوں کی ہوتی ہے اسی طرح فواد چوہدری، شیخ رشید، فروغ نسیم، بابر اعوان، عمر ایوب، شوکت ترین، شہباز گل، معید یوسف، شہزاد اکبر یہ وہ لوگ ہیں جو کہ کبھی جماعت کا حصہ نہیں رہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے مشیر اور وزیر ہیں جو کہ پی ٹی آئی سے ماضی میں وابستہ نہیں رہے جماعت کے بانی ارکان جن میں جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان اور فوزیہ قصوری ان سب کو جماعت سے اس طرح فارغ کر دیا گیا جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت سے پارٹی کے بانی ارکان جے اے رحیم اور مختار رانا کو نظریاتی اختلافات کی بنا پر جماعت سے فارغ کر دیا تھا، اب موجودہ حالات میں خاص طور پر پی ٹی آئی کی صفوں میں مکمل اتحاد کی بھی ضرورت ہے اور جماعت کے اندر تنظیمی تبدیلی کی بھی اشد ضرورت ہے اتحادی ارکان اسمبلی کو ملا کر کاروبار حکومت تو چلتا رہے گا مگر اب وقت تقاضا کر رہا ہے کہ اب انقلابی اصلاحات کرکے عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے یہ درست ہے کہ عمران خان کے پاس بنی گالا میں نہ تو کوئی سونے کی کان ہے اور نہ ہی جادو کی چھڑھی کہ اب فوراً تمام حالات درست ہو جائیں یقینا معیشت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی تو دیکھیں کہ پاکستان میں تباہ حال اخلاقیات، اقتصادیات اور مہنگائی معاشرے میں جرائم کو بھی جنم دے رہی ہیں۔ بے روزگاری ہر گھر کا مسئلہ ہے لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ پھر بھی "جئے بھٹو" اور "اک واری فیر" شیر آیا کے نعرے گونجتے ہیں 40سال تک مسلسل ان دو خاندانوں کی حکمرانی سے ڈسی ہوئی قوم نے ابھی بھی کوئی سبق نہیں سیکھا، خدا ہمارے حال پر رحم کرے، یقین جانیے کہ پاکستان کو عمران خان کی ضرورت ہے اور مستقبل میں بھی اس کی ضرورت رہے گی آج دنیا کے نقشے پر پاکستان کی اہمیت ابھر کر سامنے آئی ہے اس کی صرف اور صرف وجہ عمران خان کی دلیرانہ اور اعلیٰ پائے کی سفارت کاری ہی ہے، افغانستان میں شکست کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر امریکی تھنک ٹینک اور خاص طور پر بھارتی لابی عمران خان کے خلاف کیا سازش تیار کر رہے ہیں یقینا ہمارے حساس ادارے اس سازش سے آگاہ ہونگے۔
وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت میں اب عمران خان کی حفاظت بھی ناگزیر ہو چکی ہے اور ساتھ ہی اندرون ملک سیاسی طور پر مکمل استحکام بھی ضروری ہو گیا ہے جس کے لئے اب اپوزیشن کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔