پروٹوکول کے جلو میں گزرتی شاہی سواری میں براجمان مقتدر طبقہ کو کیا معلوم ہٹو بچو کے کلچر اور بند راستہ کی اذیت سے وہ بزرگ بھی دوچار ہے جو بھاری بھر وزن کو اپنی حیاتی کی طرح گھسیٹ رہا ہے، یہ کون سا خلیفہ دوئم کا زمانہ ہے کہ حاکم وقت رعایا کی خبر گیری کرے، جنہوں نے عمر رسیدہ نابینا یہودی کو بھیک مانگتے دیکھ کر اس جیسے تمام افراد کے جزیہ کو معاف کر دیاتھا۔
شکوہ زبان پر لاتا بھی تو اسکی آواز ان ہوٹر زمیں گم رہتی جو شہنشاہ معظم کی آمد پر بجتے ہیں، گرمی میں شرابور ماتھے سے پسینہ صاف کرتے کہتا ہے، قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا، دل یہ سوچ کر بیٹھ جاتا ہے کہ کوئی کمانے والا ہوتا، نوکری پکی ہوتی تو اسے کم از کم پنشن تو مل جاتی، مگر ہر کسی کا مقدر کہاں، سائے میں کچھ دیرسوچتا اور اگلے لمحے خیال کو جھٹک دیتا ہے کہ اس جیسے کئی بزرگ مارکیٹ میں پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے مشقت اٹھا رہے ہیں، تعلیم یافتہ بے روزگار کودیکھ کریہ تسکین تو ملتی ہے شکر ہے میرے پاس تو روزگار ہے۔
اسے کیا پتہ ایوان میں بیٹھے نمائندگان اسکی بہتری اور فلاح کے لئے کتنے بے تاب ہیں، اس کو "سینئر سٹیزن" درجہ دیا گیا ہے، 2021 کے ایکٹ کے تحت اسے بہت سی سہولیات ملنے والی ہیں، گھر جیسا ماحول دینے کے لیے "دار لشفقت" کے نام سے اولڈ ہوم قائم کیا جارہا ہے، لائبریری، میوزیم، پارک میں جانے کی فری سہولت اسے ملے گی، ہسپتال میں الگ وارڈ بنے گا، ریلوے، ائر لائن میں رعایتی نرخ پر اسے ٹکٹ دستیاب ہوگی، علاج کے لئے بھی اس کو کم نرخوں پر ادویات ملیں گی، سرکاری کے علاوہ پرائیویٹ شفا خانوں میں بھی ایسا ہی سلوک ہوگا، اس مقصد کے لئے پانچ سالہ منصوبہ مرتب کر لیا گیا ہے، تاکہ سماج کے بزرگوں کی حالت زار کو بہتر بنایا جا ئے۔
سرکار کی دلچسپی اسی لئے بھی ہے کہ ہمارے ملک کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بزرگ شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے، 2050 میں چار کروڑ تک یہ تعداد پہنچ جائے گی، ایک پڑھے لکھے فرد سے ان اقدامات کا سن کر عمر رسیدہ فرد کی باچھیں کھل جاتی ہیں وہ اپنی سرکار کو ڈھیروں دعائیں دیتا ہے۔
اپنی آنکھوں کا علاج کرانے اپنے بھتیجے کے ساتھ ہسپتال جاتا ہے اور اپنے بزرگ ہونے کا دعوی کرتے ہوئے علاج معالجہ میں رعایت چاہتا ہے، اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں جب بل اس کے ہاتھ میں آتا ہے، اسے بتایا جاتا ہے کہ بزرگی کے لئے بالوں کا سفید ہونا کافی نہیں، اس کے لئے سرکاری کارڈ بھی لینا پڑتا ہے، یہ تبھی ملتا ہے، جب آپ کے پاس قومی شناختی کارڈ ہو، چند روز کی کمائی وہ شفاخانہ میں دے کر گھر آجاتا ہے۔
اس کاتذکرہ اپنے بزرگ دوست سے کرتا ہے، وہ اس زعم میں کہ سب کاغذات اس کے پاس ہیں، ٹرین پر سفر کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے، اسے بتایا جاتا ہے کہ رعایتی ٹکٹ کاحکم نامہ محکمہ کو ابھی تک نہیں ملاتو اسکی سٹی گم ہو جاتی ہے، ایک دن وہ اپنے پوتے کے ساتھ پارک میں نکل جاتا ہے اور وہاں بھی ایکٹ کے تحت رعایت مانگتا ہے، بتایا جاتا ہے کہ یہاں ٹھیکے داری نظام ہے، لہٰذا ٹکٹ کی پوری قیمت ادا کریں، کم و بیش ایسا ہی سلوک میوزیم میں دادا پوتے کے ساتھ کیا جاتا ہے، وہ اپنا سا منہ لے کر واپس لوٹ آتا ہے، اگلے روز محلہ کی چوپال میں آپ بیتی کو تمام بزرگوں کے سامنے رکھتا ہے، اس میں موجود دیگر بزرک اپنی اپنی رام کہانیاں بھی سناتے ہیں۔
جن میں اخباری ورکرز، کاتب ساز شامل ہوتے ہیں، کچھ نے فلم انڈسٹری اور میوزک میں کام کیا ہوتا ہے، وہ بھی جو سیل مین کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، بعض نجی اداروں کے ملازم رہے، جب سر میں چاندی آگئی تو مکھن سے بال کی طرح نکال کر انھیں باہر کیا، گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک اور بزرگ وارد ہوئے، انھیں دمہ کا عارضہ تھا کہاساری عمر فیکٹری میں کام کیا، رخصت ہوئے تو چند ہزار تھما کر چلتا کیا، اولڈ ایج بینفٹ شعبہ سے ملنے والی رقم تو ڈاکٹرز کی فیس ہی برابر کر دیتی ہے، مہنگی ادویات اس کے علاوہ ہوتی ہیں، محفل میں بیٹھا کسان اپنا رونا رونے لگا، خون پسینہ کی کمائی کے بعد اتنی بچت تو ہو کہ بچوں کی تعلیم، شادی، مکان تعمیر ہوجائے، ساری حیاتی قر ض میں گزر جاتی ہے، مزے تو جاگیر، سرمایہ دار، بینکرز، ڈاکٹرز، وکلاء کے ہیں جو ٹیکس کی عدم ادائیگی کے باوجود شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں، تمام ایمانداری سے ٹیکس دیں تو ہمیں بھی شائد آسودگی ملے۔
بزرگ بولے سنا ہے مغرب میں ایک نسل دوسری کا مالی بوجھ اٹھاتی ہے، وہاں کے بزرگ شہریوں کی عمریں اس لئے زیادہ ہیں کہ تفکر سے آزاد ہیں۔ ارباب اختیار اپنی مراعات میں تو جی بھر کے اضافہ کرلیتے ہیں مگر پنشن میں اضافہ خزانے پر بوجھ لگتا ہے، اسی اثناء میں دو پنشنرز بحث میں شریک ہو کر اپنی داستان غم سنانے لگے پنجاب سرکارکے حالیہ اقدام پر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا چیلنج کرتے ہیں مجوزہ پنشن میں کوئی وزیر خزانہ گھر کا بجٹ بنا کر دکھا دے، چند لاکھ کی رقم سے کوئی پنشنر گھر کی تعمیر اور بچوں کی شادی کر سکتا ہے؟ تعجب ہے کہ کرپشن نہیں پنشن بوجھ لگتی ہے، مغربی معاشرہ کی طرح ہمیں بھی زندگی کی تمام سہولیات بمعہ انشورنس میسر ہوں تو پنشن میں کمی پھر قبول ہے۔
کیا سرکار نے ان بزرگو ں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لئے کوئی سروے کرایا ہے، جونجی اداروں، گلی، محلوں میں سکیورٹی کے فرائض ادا کرتے ہوئے کسمپرسی کی سی زندگی گذار رہے ہیں؟ سرکار کے منظور کردہ ایکٹ پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا، آئی ایم ایف کا دبائو صرف پنشنرز کے لئے ہی کیوں ہے، ہمیں لائبریری، میوزیم، پارک کی رعایت سے زیادہ علاج معالجہ، گھر کی تعمیر اور بچوں کی شادیوں کے لئے پیسے کی ضرورت ہے۔ ہمارے جیسا سلوک اگربزرگ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ہوتا پھر کوئی شکوہ نہیں تھا پنشن، مراعات میں امتیازی رویہ پنشنرز کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے، بزرگ نے سوال کیاعمر رسیدہ افراد کو گزارہ الاونس نہیں ملنا چاہئے، یہ بھی ریاستی وسائل میں برابر کے شریک ہیں۔
سماج اتنا بھی بُرانہیں کہ اولڈ ہومز کی ضرورت پیش آئے، مسائل کی بڑی وجہ بہت کم پنشن ہے، ایک طرف نوجوان روزگار کے حصول کے لئے سمندر میں ڈوب رہے ہیں، دوسری طرف اشرافیہ کی عیاشیاں ہیں، لیکن سرکار سٹاک ایکسچینج کی بلندی پر شاد ہے، بھلا عوام اور پنشنرز کا پیٹ اس سے بھر سکتا ہے۔