بظاہر دو مختلف خبریں تھیں مگر ان میں سے ایک کا ہم سے نزدیک اور دوسری کا دور کا واسطہ ہے۔ پہلی خبر کو اسکرین پر جگہ ہی نہ مل سکی کہ پارلیمنٹ میں جاری جمہور تماشا اس قدر سنسنی خیز تھا کہ کسی اور جلوے کی جگہ بنتی ہی نہ تھی۔
البتہ دائیں بائیں کچھ ٹاک شوز میں نئے وزیر خزانہ نے روا روی میں یہ خبر سنا دی کہ آئی ایم ایف کا جاری جائزہ مشن مکمل نہیں ہوا۔ اب یہ جائزہ چند ماہ دوبارہ متوقع ہے۔ یہ خبر یوں اہم ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں تعطل آیا تو جس بجٹ پر اس قدر ہنگامہ برپا ہوا، اس بجٹ کی بنیاد جن امکانات اور توقعات پر رکھی گئی ان پر عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر سرمایہ کار اداروں کی طرف سے سوالیہ نشان کھڑا ہونے اور سرخ بتی کے جلنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
دوسری خبر: کووڈ 19کے بعد گزشتہ ہفتے دنیا کے امیر ترین ممالک جی سیون کا پہلا روبرو سربراہ اجلاس ہوا، اس کے فوراً بعد دفاعی اتحاد نیٹو کا بھی سربراہ اجلاس ہوا۔ ان اجلاسوں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ امریکی صدر جو بائیڈن پہلی بار صدارت سنبھالنے کے بعد شریک ہوئے۔ دوسری خاص بات لگ بھگ چار سالوں کے وقفے میں امریکا کی پوزیشن اور انداز بالکل بدلا ہوا تھا۔ امریکا کی عالمی پالیسی میں کئی دِہائیوں سے چین کے سیاسی اور فوجی اثر و نفوذ کو روکنے کی حکمت عملی بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے؛ جسے عموماً چین کے گھیراؤ یعنی Containing China کی پالیسی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔
اس پالیسی کے تحت مدت سے اس خطے میں بھارت کو چین کے متوازی معاشی اور فوجی قوت کے طور پر کھڑے کرنے کی منظم کوششیں کی گئیں۔ دوسری جانب ساؤتھ چائنا سمندری حدود میں چین کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے جاپان، کوریا سمیت دیگر اتحادیوں کے ذریعے عملی طور پر چین کے بحری پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوششیں جاری رہیں۔ چھوٹے موٹے تصادم اور ہٹو بچو جیسے اقدامات سے فضا مسلسل کشیدہ رہی۔ چین نے بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تجارتی اور سیاسی کشیدگی میں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ امریکی حلقوں کا خیال تھا کہ چین شاید بوکھلا کر مذاکرات کی میز پر " اچھا بچہ" بن کر کچھ لو اور کچھ دو کا رویہ اپنائے گا مگر جو ہوا اس کے الٹ ہوا۔
کورونا وباء کے بعد پہلی بار جی سیون ممالک کے سربراہان روبرو بیٹھے۔ اس اجلاس میں صدر بائیڈن نے سب ممالک کو چین کے سیاسی، تجارتی اور معاشی خطرات کے پیچ و خم بتلا کر انھیں یکسو ہوکر چین کے خلاف کمربستہ ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ کچھ حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے کہ اجلاس کے اعلامیے میں چین پر منظم انداز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بیلٹ روڈ منصوبے کی صورت میں اپنے اثرو نفوذ کو بڑھانے کے عمل کو سنگین خطرہ قرار دیا۔
جی سیون کے اجلاس کے فوراً بعد نیٹو سربراہ اجلاس کا حاصل کلام بھی یہی تھا کہ چین سے مغربی ممالک کے جمہوری اور انسانی حقوق کی اقدار کو خطرہ ہے، اس لیے اب کمر باندھ کر اس خطرے سے نمٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ حسبِ توقع چین کی طرف سے شدید ردعمل آیا۔ چین کے بقول چین کو خواہ مخواہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
عالمی معیشت میں چین کی حیرت انگیز ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں حیران کن پیش رفت، تجارت اور سفارتی میدان میں چین کے عروج کے پیشِ نظر پچھلے دس پندرہ سالوں سے ماہرین اس منظر نامے کی پیش گوئی کر رہے تھے کہ کوئی دن جاتا ہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگا، سنگاپور کے معروف سفارت کار اور اب یونی ورسٹی پروفیسر کشور محبوبانی نے دو تین کتابیں بھی اسی موضوع پر لکھیں اور تسلسل سے اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے کہ امریکا دنیا کی نمبر ون پوزیشن کھو دینے کے بعد کیسےbehave کرے گا۔ ان کے بقول امریکی سفارت کار اور لیڈرز اس سوال کے جواب دینے میں طرح دے جاتے ہیں۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک اس حقیقت کا ادراک کرنے اور سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس "ہونی" کو روکنے کے لیے وہ کیا کریں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ چین پر ریسرچ اور اکیڈمک کام کرنے والے ایک اور معروف ماہر پروفیسر جان میر شائمر کے بقول آج تک کسی نئی سپر پاور کا ظہور پر امن انداز میں نہیں ہوا۔ پرانی طاقت اپنا سنگھاسن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتی اور نئی طاقت سنگھاسن کے بغیر چین سے نہیں بیٹھتی۔ پچھلی صدی کی سرد جنگ نظریات اور برتری کی سوچی سمجھی مہم جوئی تھی، حالات گواہی دے رہے ہیں کہ اس صدی میں ٹیکنالوجی اور معاشی برتری کی سرد جنگ کی مہم جوئی ناں ناں کرتے شروع ہو چکی۔
پاکستان کے لیے یہ سرد جنگ کئی مشکلات اور امکانات کا پیش خیمہ ہے۔ ایک جانب ملکی معیشت، تجارت اور مالیات کا زیادہ تردارومداریورپ، امریکا اور ان کے زیرِ تسلط مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر پر ہے تو دوسری جانب چین کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور دفاعی تعلقات سے ملک کی نیشنل سیکیورٹی کا گہرا تعلق ہے۔ دور کیا جانا، آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر ملکی معیشت کا خسارہ اسے مسلسل دیوالیے کی منڈیر پر اٹکائے ہوئے ہے۔ ترقیاتی اخراجات تو کیا حکومت کے جاری اخراجات کے لیے بھی قرضوں پر انحصار ہے۔
نیشنل اسمبلی میں گالم گلوچ اور توتکار اپنی جگہ مگر پچھلے تیس پینتیس سالوں کے دوران معیشت اس قدر نڈھال اور کھوکھلی ہو چکی ہے کہ خسارے پورے کرنے اور پچھلے قرضے ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینے کی مجبوری" رسمِ جفا" ٹھہری، ہم تم کیا، سبھی اس خرابے کے ساجھے دار ہیں، کوئی زیادہ کوئی کم۔ ایسے میں ایک نئی سرد جنگ بہت جلد ملک کو اس دوراہے پر لا کھڑی کر سکتی ہے جہاں ہمارے ساتھ ہو تو ٹھیک ورنہ۔ Either you are with us or against us کا ایک اوردوراہا دامن گیر ہو سکتا ہے، ہاں اگر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں تو پھر آزادانہ فیصلے اور انتخاب ممکن ہو سکتا ہے!