ہم ایک بے سمت اور اعتدال سے عاری قوم ہیں، سات عشرے سے زائد عرصہ کے بعد بھی ریاستی اداروں کو چلانے کیلئے قواعد و ضوابط تشکیل دے سکے نہ ان اداروں میں بھرتی کےلئے امتحانات کا کوئی موثر نظام وضع کر سکے۔ ہم نے وفاقی اور صوبائی سطح پر جو امتحانی ادارے بنائے آج ان کی کارکردگی بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے، اگر اس سطح پر بھی دو نمبری ہو رہی ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا؟ آزادی کے اتنے عرصہ بعد بھی ہم ریاست کے اہم ستونوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی تدابیر پر سر جوڑے بیٹھے ہیں، ہم نے دوسروں کے کامیاب تجربات سے استفادہ کیا نہ خود کوئی میکنزم وضع کر سکے بلکہ ناکام تجربات سے دوسروں کیلئے نشان عبرت بنتے رہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے پاس پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ سمیت کوئی ایسا ادارہ نہ تھا جو نئی ریاست کی ذمہ داری بحسن و خوبی اپنے کندھوں پر اٹھا سکے، انگریز کی تربیت یافتہ بیوروکریسی نے اس نازک اور حساس موقع پر یہ ذمہ داری اٹھانے کی ٹھانی، تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ آزادی کے ابتدائی ایام میں ملکی بیوروکریسی نے بڑی محنت جانفشانی سے نومولود ریاست کے انتظامات کو سنبھالا۔ وقت کیساتھ اقتدار کی چھینا جھپٹی، ریشہ دوانیاں، محلاتی سازشیں ترقی کے سفر میں رکاوٹ بنیں مگر مختصر عرصہ میں بیوروکریسی نے ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈال دیا، پھر فوج نے بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کا عزم کیا اور ملکی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی مگر بیوروکریسی کے تجربات سے استفادہ کیلئے اسے بھی ساتھ رکھا، اس کے بعد بھی ملک ترقی و کامرانی کے راستے پر گامزن رہا، اسی دور میں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوائ، منگلا اور تربیلا ڈیم کی منصوبہ بندی کی گئی، مہاجرین کی آبادکاری کیلئے قائد آباد، شجاع آباد کے نام سے شہرآباد کئے گئے، دارالحکومت کیلئے اسلام آباد کی آباد کاری کا منصوبہ بنا، ہر شہر میں صنعتی زون قائم کر کے صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی گئی، زراعت کو ترقی دینے کیلئے اہم ترین اقدامات کئے گئے، نتیجے میں سالوں کا سفر دنوں میں طے کیا گیا۔ جنوبی کوریا نے ہمارے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ سے متاثر ہو کر اس کی تقلید کی اور نمایاں ترقی کی مگر ہم نے بعد ازاں اس منصوبہ کو پس پشت ڈالدیا، کسی حکومت نے طویل المیعاد منصوبہ بندی پر توجہ نہ دی جو آیا اپنی مختصر المیعاد پالیسیوں کو متعارف کرا کے ملک کو حقیقی ترقی کی منزل سے کوسوں دور لے جاتا رہا، نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، ہر شعبہ زوال کا شکار ہے افراتفری ہے بے یقینی اور ذاتی مفادات کا حصول ہر ایک کا مطمع نظر ہے۔
سول حکمرانی کا آغاز بھٹو دور سے ہواءمگر انہوں نے ماضی میں ترقی کیلئے اختیار کی گئی ہر راہ مسدود کر دی، صنعت قومیائے جانے کی پالیسی نے صنعتی ترقی کو ترقی معکوس کا شکار کر دیا، اپنی ہی وضع کردہ زرعی پالیسی پر بھی عملدرآمد نہ کراسکے، زرعی شعبہ جوقومی معیشت کی جان اور 70فیصد آبادی کا روزگار جس سے وابستہ تھاتباہی سے دوچار ہو گیا، کسانوں کی اکثریت نے زمین بیچ کر شہروں کا رخ کر لیا جس سے شہری مسائل نے جنم لیا۔ ماہرین، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور نوجوان نسل جو کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں بیرون ملک کا رخ کرنے لگے، یہ سلسلہ ضیاءالحق، بینظیر بھٹو، نواز شریف اور مشرف دور میں بھی اپنے عروج پر رہا، ہر حکمران نے قانون سازی بھی اپنے اقتدار اور اختیار کو مضبوط و مستحکم بنانے کیلئے کی، بیور وکریسی کو ذاتی ملازم تصور کر لیا گیا، جو افسر سیاستدانوں اور حکمرانوں کے زبانی احکامات کو قانون پر ترجیح دیتا وہ آنکھوں کا تارا بنا رہا، نتیجے میں وہ بیو روکریسی جس نے انتہائی مخدوش حالت اور سرمایہ کی کمی کے باوجود ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا تھا حاشیہ نشین بن کر رہ گئی۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے اب ایک مرتبہ پھر سرکاری افسروں کے ملازمت کیلئے انتخاب، ترقی، تعیناتی اور پینشن کے حوالے سے نئے قوانین وضع ہو رہے ہیں، دیکھیں اب ریاست کے اس تیسرے ستون کا اونٹ کس کروٹ بٹھایا جاتا ہے، ملازمت، ترقی تعیناتی اور پینشن کے معاملات حکمرانوں کی خوشنودی سے منسلک کئے جاتے ہیں یا ریاست کے ملازمین کو ریاست کے مفاد میں کام اور فیصلے کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں نیا اصلاحاتی فارمولا وضع ہو رہا ہے، سی ایس ایس کے نظام کو تبدیل کر کے سپیشلسٹ اور نان کیڈر افسروں کو کام کرنے اور ترقی کے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں گے، بھرتی، تربیت اور تشخیص کا سسٹم بھی مکمل طور پر تبدیل ہو رہا ہے، یہ سب حکومتی کارکردگی بہتر بنانے کی آڑ میں کیا جا رہا ہے، جس کیلئے بیور وکریسی کا ڈھانچہ اور نظام مکمل طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے، ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ بھی کارکردگی کا مرہون منت ہو گا اور کارکردگی بارے رپورٹ کون دے گا یہ معلوم نہیں، پینشن بھی جمع شدہ حصہ داری میکنزم کے تحت دی جائے گی، اور وہ میکنزم کیا ہو گا نہیں معلوم، ڈاکٹر عشرت کے مطابق سول سروسز میں بھرتی کے وقت دائرہ کار کی معلومات کو بھی شامل کیا جائیگا، اگر کسی نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے اور صوبائی کوٹہ میں نہیں آتا تو اسے ڈی ایم جی یا فارن سروس میں جگہ نہیں ملے گی وہ آڈٹ یا اکاؤنٹ سروس میں جا سکتا ہے، نتیجہ یہ کہ جو معلومات امیدوار کے پاس ہیں، اسے اس کے مطابق جاب نہیں ملے گی اور اس کی معلومات اس جاب سے مطابقت نہیں رکھے گی اور وہ افسر اس صورتحال میں کیا کارکردگی دکھائے گااس کا اندازہ کرنا شائد مشکل نہیں، سی ایس ایس امتحانات کیلئے ایم سی کیوز کا طریقہ کار اپنایا جائیگا، اس مرحلہ میں ہی بہت سے امید وار مقابلہ سے باہر ہو جائیں گے جس سے قوم کا سرمایہ یہ نوجوان ضائع ہو جائیں گے، البتہ تربیتی نظام میں متعلقہ افسر کو متعلقہ حوالے سے تربیت فراہم کر نے کی تجویز بہتر ہے، کرپشن کی ایک وجہ بھی کیرئر کے حوالے سے مستقبل کی پلاننگ نہ ہونا ہے۔
وفاقی حکومت کے اس وقت 6لاکھ40ہزار ملازمین میں سے 95فیصد گریڈ ایک سے سولہ کے ملازم ہیں، صرف پانچ فیصد گریڈ 17اور اس سے اوپر کے ملازمین ہیں جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بیوروکریسی پر کام کا کتنا بوجھ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جیسے ماتحت عدلیہ میں مقدمات کے بوجھ کے باعث کارکردگی نہیں اسی طرح بیوروکریسی بھی کام کے دباؤ کا شکار ہے ضرورت اس دباؤ کو کم کرنے کی ہے مگر اس پر توجہ دینے کی بجائے ڈھانچہ تبدیل کرنے سے نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا، ضرورت بیورو کریسی کو کام میں آزادی دینے کی بھی ہے، جس طرح موجودہ حکومت میں سرکاری عہدوں کے ساتھ گزشتہ اڑھائی سال سے مذاق کیا جا رہا ہے اس روش کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ قوانین جتنے مرضی اچھے لے آئیں عملدرآمد نہیں ہو گا تو نتیجہ صفر ہی نکلے گا، اچھی حکومت قائم ہو گی نہ کوئی کارکردگی دکھا سکے گا۔