مہذب معاشرے اور قومیں آسمانی یا زمینی وباءکی صورت میں ایک ہو کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں جبکہ ایسی آفات سے بچاو اور تدارک کےلئے قائم ادارے ہنگامی حالات کے تحت ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جن کی وجہ سے جلد از جلد عوام کو ریلیف ملے۔ پچھلے ایک سال سے دنیا کووڈ 19وائرس کی زد پر ہے، ہر ملک اپنے شہریوں کو اس آفت سے بچانے اور نقصانات کم سے کم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، شہری خود بھی حفاظتی انتظامات اپنا کر وائرس کو شکست دینے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ مگر ہمارے ہاں گنگا ہمیشہ الٹی بہتی ہے، شہری تو ایسے حالات کو سیریس لے ہی نہیں رہے مگر ہماری پنجاب حکومت کے دو، دو محکمہ صحت کے حالات بھی نرالے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت نے ابتداءمیں ایسے اقدامات کئے جس سے وباءکی پہلی لہر کی تباہی اور ہلاکت کو کم سے کم کیا گیا، مگر کرونا کی دوسری لہر بے قابو ہوئی جاتی ہے اور اس کے ذمہ دار شہریوں سے زیادہ اس وباءکا مقابلہ کرنے کے لئے قائم ادارے، اس کے بابو اور اہلکار بھی ہیں، اول تو ہسپتالوں اور قرنطینہ مراکز میں محکمہ صحت کے کوئی موثر انتظامات نہیں، ڈاکٹر دستیاب ہیں نہ ہی دوا ملتی ہے اور نہ ہی ضروری حفاظتی اقدامات کو خاطر میں لایا جاتا ہے، تمام شور اخبارات کے صفحات اور ٹی وی سکرین پر ہی سنائی دیتا ہے، نتیجے میں جہاں علاج معالجہ اور ٹیسٹوں کے مناسب منظم انتظامات نا پید ہیں وہاں اس وباءسے ہونے والی تباہی اور ہلاکتوں بارے حقیقی صورتحال سے بھی عوام بے خبر ہیں، عوام ہی کیا خود حکمران طبقہ کو بھی علم نہیں کہ اس مہلک وائرس نے اب تک کتنے انسانوں کی زندگی کو نگلا ہے۔
عطا الحق قاسمی ہمارے ملک کا عظیم ادبی سرمایہ اور ہمارا فخر ہیں، قومیں ایسے لوگوں پر ناز کرتی ہیں، ان کے سیاسی خیالات سے قطع نظر انکی تحریریں، لکھے ہوئے ڈرامے اور جملے بازی ہمارے ادب کا ایک نادر باب ہیں مگر ہم تو ویسے ہی بے ادب لوگ ہیں ہمیں علم و ادب سے کیا لینا دینا۔ قاسمی صاحب پچھلے دنوں کرونا کے مرض کا شکار رہے، اللہ کا شکر ہے کہ وہ اب صحت مند ہیں۔ انہوں نے اپنے پوسٹ کرونا کالم میں اس مرض کے حوالے سے اپنے تجربات اور پنجاب حکومت کے محکمہ صحت کے جو حالات بیان کئے ہیں وہ ہمارے لئے باعث شرم ہیں۔ میں نے ہمیشہ پی اے ایس اور ڈی ایم جی افسران کے کاموں کو سراہا ہے مگر اب آہستہ آہستہ حالات بدلتے محسوس ہو رہے ہیں۔ کوئی ایک سال پہلے میں نے پنجاب میں صحت کے دونوں سیکرٹریوں بیرسٹر نبیل اعوان اور ڈاکٹر عثمان کی کرونا کے حوالے سے کئی بریفنگز اٹینڈ کی تھیں جو انہوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو دی تھیں۔ مجھے اس وقت بھی محسوس ہوا تھا کہ یہ بریفنگز صرف وزیر اعلیٰ کو شیشے میں اتارنے کے لئے اعداد و شمار کی جگلری تھیں، جس کا اظہار میں نے اس وقت کے نیک نام اور محنتی چیف سیکرٹری میجر اعظم سلیمان سے بھی کیا تھا۔ ہمارے موجودہ بیوروکریٹس کی اکثریت کو لیپ ٹاپ میں فیڈ ہوئے عالمی اور ملکی اعدادوشمار کے علاوہ کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا، انہیں زمینی حقائق کا علم ہوتا ہے نہ وہ ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
کرونا کی پہلی لہر کے دوران دیکھا گیا تھا کہ ہسپتال میں ہونے والی ہر موت یا آنے والی کسی بھی مرض سے جاں بحق لاش کو کرونا کا شکار قرار دے کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کئے جاتے رہے، کسی علاقہ میں کرونا کے مریض کی موجودگی کی اطلاع ملتے ہی اس علاقہ کو نو انٹری زون قرار دیکر مکینوں کو محصور کر دیا جاتا، شہریوں کو دفاتر، سکول، خریداری کیلئے آنے جانے کیلئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا مگر اس علاقہ میں محکمہ صحت کی حفاظتی ٹیمیں کبھی علاقہ کے مریضوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کا سراغ لگانے وقت پر نہ پہنچ سکیں، اگر کہیں کسی کے خون کے نمونے لئے گئے تو اسے نتائج سے بے خبر رکھا گیا نتیجے میں جس کا ٹیسٹ لیا گیا اس کا پورا گھرانہ پریشانی میں مبتلاءہو گیا اور اہل علاقہ نے ان کو اچھوت بنا دیا۔ اطلاعات ہیں کہ شہر بھر ہی نہیں پورے صوبہ میں محکمہ صحت کے اہلکار جس کسی مشکوک شخص کا نمونہ خون لیکر گئے اسے منفی یا مثبت رپورٹ کی اطلاع نہیں دی گئی، جس سے وہ لوگ بھی بے پروا ہو گئے جو واقعی متاثرہ تھے اور وہ اپنے اہل خانہ، محلے، دفتر کے ساتھیوں میں وائرس کے آزادانہ پھیلاؤ کا سبب بنتے رہے، اور جو لوگ متاثر نہیں تھے ان کی زندگی اجیرن ہو گئی، دلچسپ بات یہ کہ جن لوگوں نے محکمہ یا متعلقہ حکام سے رزلٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تو ان کو بتایا گیا کہ ان کے خون کا نمونہ ٹیسٹ کیلئے آیا ہی نہیں۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب، وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ صرف اخباری بیانات یا تقاریر سے آفتوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، اس کیلئے ایک منظم، منضبط، موثر، طویل المعیاد پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایسی کوئی حکمت عملی عوام کو صوبہ بھر میں تلاش کرنے سے بھی نہیں دکھائی دے رہی۔
اب پاکستان میں چین سے ویکسین آچکی ہے اور حکومت نے بھارت سے بھی ویکسین خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اگر ویکسین عطیہ کے طور پر لینا ہے یا دشمن ملک سے خریدنا ہے تو پھر وہ دعویٰ جو مقامی طور پر ویکسین تیار کرنے کے حوالے سے ماضی میں کئے جاتے رہے ان کی حقیقت کیا ہے، کرونا ویکسین کی پاکستان میں دستیابی اور قیمت کے حوالے سے مختلف اخباروں اور ویب سائٹس پر کئی طرح کی خبریں چل رہی ہیں۔ ویکسین کی کتنی تعداد منگوائی جائے گی؟ اس بارے بھی فی الوقت کچھ کہنا ممکن نہیں، پنجاب حکومت کے کارپرداز اس حوالے سے کیا حکمت عملی اپنا رہے ہیں کچھ معلوم نہیں، دنیا کے 51 ملک ویکسین منگوا کر یا خود بنا کر اپنے کروڑوں شہریوں کو لگا بھی چکے، جب کہ ہمارے ہاں ابھی تک سوچ بچار ہی کی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں اسکی قیمت کیا ہو گی، غریب اور مستحق شہریوں کو بلا معاوضہ دستیاب ہو گی یا ان کو مرنے کیلئے وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائیگا۔ محکمہ صحت کے وہ اہلکار اور افسر جو کرونا کی روک تھام کیلئے متعین ہیں جن کو حکومت عوام کے ٹیکسوں سے ہر سہولت اور آسائش فراہم کر رہی ہے وہ اپنی ڈیوٹی ہی نہیں، انسانیت اور انسانی ہمدردی سے بھی عاری ہیں، اپنے فرائض منصبی اس خوفناک صورتحال میں بھی انجام دینے سے کترا رہے ہیں، جس سرکاری مشینری اور بیوروکریٹس نے سب کچھ کرنا ہے وہ نظر ہی نہیں آ رہے۔ اللہ خیر کرے۔