اتوار کی صبح اٹھ کر اپنا کالم لکھنے کے بعد دفتر بھجوادیا تو حسب عادت اخباروں کے پلندے سے رجوع کیا۔ عید کی تعطیلات کے بعد شائع ہوئی "خبروں" کی اکثریت "باسی" تھی۔ ٹی وی یا سوشل میڈیا کی بدولت وہ کئی گھنٹے قبل ہمیں مل چکی تھیں۔ ان پر نگاہ ڈالتے ہوئے ایک بار پھر یہ خیال جی کو اداس کرنے لگا کہ میرا صحافت کے حوالے سے "اصل عشق" یعنی اخبار واقعتا زوال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ آندرے میر نامی محقق نے ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر ہی 2024کو "اخبار کی موت" کا سال ٹھہرادیا تھا۔
مایوسی کے گرداب سے کافی کوشش کے بعد باہر نکلا تو "اخبار" ہی کے دیگر شعبوں پر بھی توجہ دی۔ مختلف اخبارات میں چھپے کئی کالموں نے یہ تاثر دیتے ہوئے حوصلہ بخشا کہ ان میں کہی بات فقط اخبار کے لئے لکھے کالم ہی میں بیان ہوسکتی تھی۔ ٹی وی کے کسی ٹاک شو یا یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے اسے بیان کیا جاتا تو بات غالباََ "بن نہ پاتی"۔ تھوڑا حوصلہ ملا تو اسی حوالے سے مزید غور جاری رکھا۔
اتوار کے روز ہمارے اخبارات "سنڈے ایڈیشن" بھی چھاپتے ہیں۔ ان کی اہمیت وافادیت کا ایک بار پھر ادراک ہوا اور بالآخر "ڈان" کے سنڈے ایڈیشن تک آگیا۔ اس کے صفحہ اوّل پر خرم حسین کا لکھا ایک مضمون چھپا تھا۔ ایک صحافی دوست کی بدولت کئی برس قبل خرم صاحب سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اگر اس شہر کے رہائشی ہوتے تو ہفتے میں کم از کم دو دن مجھ جاہل کے ذہن میں پاکستان کی معیشت کے بارے میں امڈتے سوالات کے جواب فراہم کرنے کی اذیت سے لازماََ گزرتے۔ وہ "ماہر معیشت" ہیں۔ ایسے ماہرین کی اکثریت سے میں بہت چڑتا ہوں۔ بھاری بھر کم اصطلاحات سے لدی جناتی انگریزی میں وہ ہم عامیوں کو معاشیات کی نزاکتیں سمجھانے کے لئے جو مضامین لکھتے ہیں ایک سے زیادہ بار پڑھنے کے باوجود مجھ جیسوں کو ہرگز سمجھ نہیں آتے۔
خرم حسین کا میں اس باعث گرویدہ ہوں کہ اخبار کے لئے معاشیات پر لکھتے وقت وہ روزمرہّ زندگی کے معمولات پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتوار کی صبح لکھے کالم کے اختتام پر میں نے ان "ماہرین معیشت" کو "سفاک" ٹھہرایا تھا جو عید کے روز پاکستان کی آئی ایم ایف سے ہوئی ڈیل سے خوش نہیں تھے۔ تابڑ توڑ ٹویٹس کے ذریعے یہ تاثر پھیلاتے رہے کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے ہمارے ساتھ معاہدہ کرکے پاکستان کو "دیوالیہ" ہونے سے نہیں بلکہ "انقلاب" سے بچالیا ہے۔ آئی ایم ایف سے آئندہ نو مہینوں میں 3ارب ڈالر وصول کرلینے کے بعد ہماری حکمران اشرافیہ اب معاشی اصلاحات متعارف کرنے کی طلب محسوس نہیں کرے گی۔ ان "اصلاحات" کے بغیر غالباََ اگلے برس کے آخری ایام میں پاکستان ایک بار پھر "دیوالیہ" کی جانب بڑھتا نظر آئے گا۔ قصہ مختصر مذکورہ ماہرین کی واضح تمنا تھی کہ کاش آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوتا۔
مجھے خوشی ہوئی کہ خرم صاحب نے بھی ان "آوازوں" کو سن لیاجو ان کی نگاہ میں یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ پاکستان کا دیوالیہ ہوجانا اتنی "بری" خبر بھی نہیں جیسی بتائی جارہی ہے۔ ان ماہرین کی نگاہ میں دیوالیہ ہوجانے کے بعد ہی پاکستان بلکہ اپنی معاشی ترجیحات کو سیدھی راہ پر چلاسکتا تھا۔ مذکورہ آوازوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے خرم صاحب نے ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو اس مضمون کا اردو ترجمہ کرنے کے بعد اسے غالباََ دو سے زیادہ اقساط میں چھپواتے ہوئے اپنے کالم کی "دیہاڑی" لگالیتا۔
بہرحال مذکورہ مضمون کے ذریعے خرم صاحب نے"دیوالیہ" ہوجانے کے بعد میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں پر روزمرہّ زندگی کے حوالے سے ممکنہ نہیں بلکہ یقینی طورپر لازم ہوئے عذابوں کو نہایت تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ مضمون کے آغاز ہی میں انہوں نے حال ہی میں ہوئی ایک تحقیق کا حوالہ بھی دیا ہے جس نے 1900کے برس سے مختلف ممالک میں 131ایسے حالات کا جائزہ لیا جنہیں"مابعددیوالیہ" پکارا جاسکتا ہے۔ ایسے حالات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ جو ممالک "دیوالیہ" سے دو چار ہوئے ان کے ہاں غربت میں 30فی صد اضافہ ہوا۔ بچوں میں شرح اموات 13فی صد تک بڑھ گئی۔ دیوالیہ کے اثرات نے ایک سے زیادہ دہائی تک اس کی زد میں آئے ملک کو بدحال بنائے رکھا۔
"دیوالیہ" کے طلب گار" انقلابیوں" کو خرم صاحب نے رواں برس کا جنوری بھی یاد دلایا ہے۔ اس کے دوران ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کا نظام 13گھنٹوں تک مفلوج رہا تھا۔ محض 13گھنٹے کی معطلی نے روزمرہّ زندگی درہم برہم کردی۔ ایک تحقیق نے پتہ چلایا ہے کہ ان گھنٹوں کی وجہ سے ملک بھر میں انٹرنیٹ سے جڑا ہر نظام 24گھنٹوں کے لئے 50فی صد رہ گیا۔ سادہ زبان میں یوں کہہ لیں کہ 13گھنٹوں تک بجلی کی عدم دستیابی نے 24گھنٹوں کے دوران بتائی زندگی کو ایک دن کے لئے "آدھا" بنادیا۔ حقیقت یاد دلانے کے بعد خرم صاحب قارئین کو یہ سوچنے کو اکساتے ہیں کہ فرض کریں پاکستان دیوالیہ ہوگیا اور ہم بجلی اور پیٹرول سے بتدریج محروم ہونا شروع ہوگئے تو ہماری روزمرہّ زندگی میں کیسی قیامتیں برپا ہوں گی۔
اسی تناظر میں انہوں نے 2015کا ذکر بھی کیا ہے جب پاکستان کو محض چند دنوں کے "پیٹرول بحران" کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس بحران کے ابتدائی 24گھنٹے گزرنے کے بعد ایمبولینس سروس بند ہوگئی۔ پولیس کی گاڑیوں نے معمول کی گشت بھی پیٹرول نہ ملنے کے سبب روک دی۔ مذکورہ بحران کا ذکر کرتے ہوئے خرم صاحب نے یاددلایا ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کا پیٹرول فقط دو ہفتوں کے لئے ذخیرہ کرسکتا ہے۔ خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوگیا تو اس ذخیرے کی "راشن بندی" کرنا ہوگی۔ اس کی بدولت پیٹرول پمپوں کے باہر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی لمبی قطاریں روزمرہّ کا معمول بن جائیں گی۔ پیٹرول کی "راشن بندی" بجلی پیدا کرنے اور اس کے ترسیل کے نظام کو بھی بالآخر مفلوج بنادے گی۔
پیٹرول کی راشن بندی کے سب سے خوفناک اثرات غذائی اجناس کی شدید قلت کی صورت بھی رونما ہوں گے۔ خرم صاحب کی تحقیق کے مطابق کراچی جیسے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے شہر میں روزمرہّ ضروریات کی سبزیاں وغیرہ فقط سات دنوں تک "ذخیرہ" کی جاسکتی ہیں۔ ہفتہ گزرجانے کے بعد تازہ سپلائی درکار ہوتی ہے۔ خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوگیا اور وہ ٹرک جو میرپور خاص وغیرہ سے کراچی کے لئے سبزیاں لاتے ہیں پیٹرول کی قلت کی بدولت دستیاب نہ ہوئے تو لوگ جیب میں بھاری بھرکم رقم ہوتے ہوئے بھی "دن کی روٹی" کے لئے سبزیاں کہاں سے خریدیں گے؟ ایسا ہی عالم گوشت اور آٹے وغیرہ کے ساتھ بھی پیش آئے گا۔
خرم صاحب نے اپنے مضمون میں سری لنکا اور لبنان کی "مابعددیوالیہ" زندگی کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ میں خود بھی ان سے جڑے چند حقائق کا ذکر کرتا رہا ہوں۔ خرم صاحب کا دل دہلادینے والا انکشاف مگر یہ تھا کہ لبنان میں ایک غریب گھرانہ اپنی ماہانہ آمدنی کا 88فی صد یعنی سومیں سے 88روپے فقط ا پنے گھر میں جنریٹر کے ذریعے پیدا ہوئی بجلی کے حصول میں خرچ کردیتا ہے۔ خدارا اندازہ لگائیں بقیہ 22روپے کس کام آتے ہوں گے۔
خرم صاحب جیسے مستند ماہر معیشت کے لکھے مضمون کو غور سے پڑھنے کے بعد ربّ کریم سے فریاد ہے کہ ہمیں دیوالیہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ اس کے علاوہ ان ماہرین معیشت کے گرانقدر خیالات سے بھی جو ہماری معیشت میں"انقلابی اصلاحات" کی خاطر پاکستان کو دیوالیہ کے پل صراط سے گزارنے کی تمنا پال رہے ہیں۔